سٹاک ہوم: (ویب ڈیسک) سویڈش ماحولیاتی و سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں اسرائیلی حراست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تذلیل کی گئی، اور پنجرے میں گیس بھرنے کی دھمکی دی گئی۔
سویڈن کے جریدےافٹُن بلادیٹ نے ایک انٹرویو میں رپورٹ کیا ہے کہ گریٹا ان 450 افراد میں شامل تھیں، جو گلوبل صمود فلوٹیلا کے جہاز پر سوار تھے، یہ ایک انسانی ہمدردی پر مبنی امدادی مشن تھا، جس میں 40 سے زائد کشتیوں نے حصہ لیا تھا، اس مشن کا مقصد غزہ کی پٹی میں خوراک، پانی اور ادویات پہنچانا تھا۔
یہ کشتیاں یکم اکتوبر کو اسرائیلی بحریہ نے روک لی تھیں، اور گریٹا سمیت تمام کارکنوں کو گرفتار کر کے اسرائیلی حراست میں لے لیا گیا تھا، انہیں 6 اکتوبر کو رہا کر کے یونان بھیج دیا گیا تھا۔
اپنے انٹرویو میں گریٹا تُھنبرگ نے اسرائیلی حراست میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو تحقیر، تشدد کی دھمکیاں، اور جسمانی مارپیٹ بیان کیا، افٹُن بلادیٹ نے لکھا کہ وہ اپنے بارے میں یا اس اذیت کے بارے میں سرخیاں نہیں چاہتیں جس کا وہ کہتی ہیں کہ انہیں سامنا کرنا پڑا، یہ ان کی ابتدائی باتوں میں سے ایک تھی، جب وہ اپنے ملک واپس آئیں۔
سرگیلز ٹورگ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران گریٹا نے کہا کہ یہ میرے یا فلوٹیلا کے دیگر افراد کے بارے میں نہیں ہے، ہزاروں فلسطینی، جن میں سیکڑوں بچے شامل ہیں، اس وقت بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں، اور ان میں سے کئی پر تشدد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اگر اسرائیل پوری دنیا کی موجودگی میں ایک مشہور سفید فام سویڈش پاسپورٹ رکھنے والی شہری کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے، تو ذرا سوچیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ بند کمروں میں کیا کرتے ہوں گے۔
گریٹا نے کہا کہ فلوٹیلا کے کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس اذیت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کا فلسطینی دہائیوں سے سامنا کر رہے ہیں، میں نے اپنی قید کے مقام کی دیواروں پر گولیوں کے سوراخ، خون کے دھبے، اور فلسطینی قیدیوں کے کندہ پیغامات دیکھے ہیں۔
گریٹا نے اس رات کا ذکر بھی کیا، جب اسرائیلی فوج نے فلوٹیلا پر چڑھائی کی، اور بتایا کہ اسرائیل نے کیمیائی مواد استعمال کیا اور اب وہ کبھی بھی ستاروں بھرا آسمان دیکھ کر ڈرونز کو بھول نہیں سکیں گی، وہاں نیچے بہت زیادہ گرمی تھی، ہم بس بیٹھے رہے، جو لوگ ہمیں نہیں دیکھ رہے تھے، وہ کشتی کے گرد گھوم رہے تھے، چیزیں توڑ رہے تھے اور ہر چیز ادھر اُدھر پھینک رہے تھے۔