افغان طالبان کی جانب سے آزادی اظہار پر پابندیوں، صحافیوں پر مظالم کا پردہ چاک

Published On 24 October,2025 11:24 am

کابل، نیویارک: (دنیا نیوز) ہیومن رائٹس واچ نے افغان طالبان کے دورِ حکومت میں آزادیِ اظہار پر سنگین قدغنوں اور صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم کو بے نقاب کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں میڈیا کی آزادی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، طالبان حکومت میں معمولی تنقید پر بھی صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، قید و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں جبری طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان نے ڈراموں، موسیقی اور خواتین کی آواز کو میڈیا سے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے جبکہ خواتین صحافیوں پر امتیازی پابندیاں عائد کر کے انہیں میڈیا سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق افغانستان میں مرد صحافیوں کی تعداد 4 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار رہ گئی ہے جبکہ خواتین صحافیوں کی تعداد 1400 سے گھٹ کر صرف 600 رہ گئی ہے، طالبان کے انٹیلی جنس ادارے اور وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میڈیا دفاتر پر چھاپے مار کر مواد کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ افغان میڈیا کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ عوامی مسائل یا شکایات پر رپورٹنگ کو "ریاست کے خلاف پروپیگنڈا" سمجھا جائے گا، طالبان صحافیوں کو زبردستی پیشگی منظور شدہ خبروں کی اشاعت پر مجبور کرتے ہیں جبکہ گرفتار صحافیوں کو رہائی سے قبل تحریری حلف نامہ دینا پڑتا ہے کہ وہ دوبارہ صحافت نہیں کریں گے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان کی پابندیوں اور تشدد کے باعث افغانستان کے 60 فیصد میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں جس سے ملک میں آزادی اظہار اور آزاد صحافت مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔

عالمی ادارے بشمول اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل، طالبان سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ صحافیوں پر تشدد، سینسر شپ اور خواتین پر امتیازی پابندیاں فوری طور پر ختم کریں۔

ہیومن رائٹس واچ نے متنبہ کیا ہے کہ افغان طالبان کی آمرانہ پالیسیاں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے کی سلامتی پر بھی ان کے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔