بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے کو دوران دو عالمی جنگوں نے یورپ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ 1930ء کی عالمی معاشی کساد بازی نے امریکہ اور یورپی ممالک کی معیشتوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ چنانچہ ان معاشی اور مالی گراوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک نئے مالیاتی نظام کی تشکیل کی خواہش پیدا ہوئی۔
1944ء میں ’’اقوام متحدہ فنانشل کانفرنس ‘‘بریٹن ووڈزنیو ہیمپشائر،امریکہ میں منعقد کی گئی۔ 44 ممالک کے مندوبین نے مجوزہ الاقوامی مالیاتی فنڈ کا مسودہ تیار کیا جس کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نئے عالمی مالیاتی نظام کی نگرانی کریگا جس کو ’’نیو بریٹن ووڈ مالیاتی نظام‘‘ کا نام دیا گیا۔
مندوبین کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ معاشی نمو بڑھانے کے لئے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دے گا جبکہ ترقی پذیر ممالک اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے عالمی کرنسیوں میں آسان شرائط پر قرضہ حاصل کرسکتے تھے۔
یہ معاہدہ 27 دسمبر 1945ء کو 29 ممالک کی توثیق کے بعد نافذ کر دیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بورڈ آف گورنر زکے انتخاب کے بعد 12 ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز کی پہلی کانفرنس 1946ء میں منعقد ہوئی اسی سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے قرضوں کا اجراء شروع کیا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے 189 ممبران اپنی معاشی حیثیت اور کوٹہ سبسکرپشن کے حساب سے فنڈ کو چندہ دیتے ہیں۔ کوٹہ سبسکرپشن کا مطلب ہے جو ملک زیادہ پیسہ دے گا، اس کا اتنا ہی زیادہ کوٹہ ہوگا۔ اسی حساب سے اس ملک کے ووٹ تشکیل دیے جائیں گے۔ اسی ووٹ کے عمل کے ذریعے ممالک کو قرض کے اجرا کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
کوٹہ سبسکرپشن میں امریکہ کا حصہ سب سے زیادہ ہے جو 118 بلین ڈالر بنتا ہے جس کے ساتھ امریکہ کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں مجموعی حصہ 17 فیصد بنتا ہے۔ اسی لیے امریکہ کی ووٹنگ پاور دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، روس اور برطانیہ کل ووٹوں کا پچاس فیصد کنٹرول کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف فی الحال 35 سے زائد ممالک کو 200 بلین ڈالر کے قریب قرض دے رہا ہے، جن میں ارجنٹائن، ایکواڈور، مصر، عراق، اردن، تیونس، یوکرین ، پاکستان اور سب صحارا کے 16 افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف نے انگولا، بارباڈوس، کولمبیا، مالاوی، مراکش اور سیرا لیون سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو مدد دی ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد آئی ایم ایف نے یونان، آئس لینڈ، آئرلینڈ، لیٹویا اور پرتگال کو مالی اعانت فراہم کی۔
کولمبیا، میکسیکو اور پولینڈ سمیت 90 ممالک کو 540 بلین ڈالر قرض تک رسائی فراہم کی۔ فنڈ نے کم آمدنی والے ممالک کے لئے صفر سود پر قرضے دیئے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ دہائیوں میں اپنے دائرہ کار اور اثرورسوخ میں اضافہ کیا، خاص طور پر 1970ء کی دہائی میں بریٹن ووڈز سسٹم کے خاتمے کے بعد آئی ایم ایف کا مجموعی نظام بدل گیا ۔یہ ممبر ممالک کو ادائیگی کے توازن کو درست کرنے اور اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے میں مدد کے لئے قرضے مہیا کرتا ہے اس کی سب سے بدنام مثال 2011ء میں یونانی حکومت کے لئے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری تھی۔
عالمی تنقید
آئی ایم ایف کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اقتصادی بحرانوں سے دوچار ممالک کے لئے آخری وسیلہ ہے اور پسماندہ ممالک میں اصلاحات نافذ کرنے کا عین ذریعہ ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اصلاحات اور قرضہ کے نام پر ملکوں کے معاشی مسائل کو مزید خراب کرتا ہے تاکہ ان کو قرضہ کی سہولت بار بار ملتی رہے۔
اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ممالک کی خود مختاری پر اثر انداز ہوتا ہے اور سٹرکچرل ریفارمز کے نام پر ان کی معیشت اور خارجہ پالیسیوں تک کو تبدیل کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض ممالک میں وزرائے خارجہ کا انتخاب بھی آئی ایم ایف کی ضرورت کے مطابق کیا گیا جس کی ایک واضح مثال 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ترکی کے وزیر خارجہ کی تقرری ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر اس لئے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس کی قرض اجرا کی پالیسیاں امریکا اور اس کے حامی ممالک کی مرضی سے تشکیل دی جاتی ہیں۔
مزید یہ کہ یہ ممالک سرمایہ دارانہ نظام کی خاطر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو تیسری دنیا کی کمزور معیشتوں کا استحصال کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ قرضوں کے اجراء میں امریکی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ جس کی ایک واضح پچھلے سال پاکستان کو دیا جانے والا بیل آؤٹ پیکج ہے۔
امریکی حکومت کے مطابق پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پیسوں سے چین کا قرضہ اتارے گا اور اس کے ساتھ پاکستان کو دی جانے والے پیکج میں میں FATF کی شرائط بھی شامل کی گئی جس کا آئی ایم ایف کی میں تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
آئی ایم ایف پر پچھلے کئی سالوں سے معیشت دانوں کی طرف سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات جوزف سٹیگلٹز نے اپنی کتاب globalisation and its discontents میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں لاگو کی جانے والی ناکام اقتصادی پالیسیوں میں بنیادی مجرم قرار دیا ہے۔
انہوں نے آئی ایم ایف کے نظام کو عالمی معاشی ترقی میں ناسور قراردیا ہے۔ جوزف اسٹیگلٹز کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو بھی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں قرض دینے کی شرائط سے لیکر کر زیادہ شرح سود میں کمی، تجارتی آزادی اور نجکاری کے ذریعے معاشی اہداف کو مزید بہتر کیا جاسکتاہے۔
ایک اور ماہر معاشیات ولیم آسٹرلی نے 2006ء میں اپنے مقالے the white man s burden میں آئی ایم ایف کے پیکجز کو مشن کریپ کا نام دیا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے 90ء کی دہائی میں میکسیکو اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو فراہم کی جانے والی قلیل امدادکو قدرے کامیاب قرار دیا جبکہ انتہائی غریب ممالک (بشمول افریقہ اور لاطینی امریکا )کو فنڈز کی فراہمی اور ان ممالک کے معاشی اور سیاسی نظام میں بے جا مداخلت کو ناکامی قرار دیا۔
ان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تکنیکی مشوروں اور زمینی حقائق میں زمین و آسمان کا فرق تھا جس کی وجہ سے افریقی اور لاطینی ممالک آج بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ فراہم پر انحصار کرتے ہیں اور ان کی معیشتوں کی حالت جوں کی توں ہے۔
کیا آئی ایم ایف سامراجی مفادات کو فروغ دیتا ہے؟
آئی ایم ایف کی ناقدین کا خیال ہے کہ کہ یہ سامراجی قوتوں کے مفادات کو فروغ دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غریب ممالک کو امریکی معاشی سامراجی نظام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ سامراجی طاقتیں غریب یا ترقی پذیر ممالک پر سب سے پہلے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرواتی ہیں۔ جس کے بعد وہ اپنا سیاسی،معاشرتی،معاشی اور فوجی تسلط مسلط کرتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو بھاری قرض کے چنگل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف غریب ممالک کی پالیسیوں کو امریکی سامراج کے ماتحت کر دیتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں قرض کی غلامی میں چلی جاتی ہیں۔آئی ایم ایف حکومتوں کو کرنسی کی قدر میں کمی، کس حد تک کمی، وسائل کو پرائیویٹ کرنا یا بیچنا، خریدنا، ملکیت اور اخراجات اور کس ملک کے ساتھ کتنی تجارت کرنی ہے کو ڈکٹیٹ کرتا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ نیٹو اتحاد بھی اس معاشی سامراج کا حصہ ہے۔ ضرورت کے وقت نیٹو اتحاد کو استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے امریکہ ان ممالک کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگراموں پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت یا تو زیادہ خراب ہو گئی اور اگر بہتر بھی ہوئی تو اس کو آئی ایم ایف پر بار بار انصار کرنا پڑا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم آئی ایم ایف کے بین الاقوامی پروگراموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یورو زون اور آئی ایم ایف
بہت سے مبصرین یورپی بیل آؤٹ پروگراموں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق آئی ایم ایف سے قرض کرنے کے بعد یونان اور سپین کساد بازی اور بے روزگاری کا شکار رہے ہیں۔
سپین اور یونان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 30 فیصد ہے جو یورپین یونین میں سب سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج کے بعد یونان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے یونان پر قرضوں کا حجم اس کی جی ڈی پی کا تقریباً 180 فیصد اور بے روزگاری کی شرح 22.5 فیصد ہے۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف کا اپنا خودمختار نگران ادارہ IEO نے آئی ایم ایف اُس کے یورو زون کو مہیا کیے گئے قرضوں کو ناکامی قرار دیا۔ بحران یونان سے شروع ہواکر آئرلینڈ، پرتگال اور قبرص تک پھیل گیا جس نے 19 ممالک کی کرنسی کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا۔
ایشیا اور آئی ایم ایف
1997ء کے ایشیائی کرنسی بحران نے تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا کو آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک کے زر مبادلہ کے ذخائر بالکل ختم ہو چکے تھے ان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ ای او آئی ایم ایف نے ہنگامی بنیادوں پر اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کے تحت قرض فراہم کئے۔
سٹرکچرل اصلاحات کے ذریعے حکومتوں کو اخراجات میں مزید کمی کرنے کو کہا گیا جس سے معاشی ترقی کی رفتار مزید سست ہوگئی، جنوبی کوریا جس کی سالانہ آمدنی یورپی ممالک کے برابر تھی وہاں بیروزگاری کا تناسب تین فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہو گیا۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک انڈونیشیا تھاجہاں غربت کی شرح 11 فیصد سے بڑھ کر چالیس فیصد تک ہوگئی۔ جی ڈی پی میں ایک ہی سال میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔
دوسری طرف مشرقی ایشیائی ممالک میں ایک ایسا بھی ملک شامل نہ تھا جس نے آئی ایم ایف کی امداد اور مشورے سے انکار کیاہو۔ ملائیشیا نے اپنی معیشت کو مزید بہتر بنانے کے لئے اپنی کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھا۔ ملائیشیا کے انکار پر آئی ایف آئی ایم ملائیشین حکومت کا مذاق اڑایا لیکن بعد میں اس نے ملائیشیا کی کامیابی کو تسلیم کیا۔
پاکستان نے 2013ء میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا یہاں کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ (افراطِ زر کو منہا کر کے) مالی سال 18 - 2017ء میں 5.5فیصد تھی جو پچھلے مالی سال میں کم ہوکر 3.3 فیصد پر آگئی۔
یہاں ہم بتاتے چلیں کہ بعض غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ اس سے بھی کم تھی۔جبکہ رواں مالی سال میں یہ مزید کم ہو کر2.4فیصد پر آسکتی ہے لیکن آئی ایم ایف اصلاحات کے بعد اس میں حیرت انگیز طور پربتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ مالی سال 2022-23ء میں یہ 5فیصد ہو جائے گی۔ عملاََاب بھی غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔
براعظم افریقہ اور آئی ایم ایف
براعظم افریقہ کی بات کی جائے تو نو افریقی ممالک نے آئی ایم ایف سے دوبارہ مالی معاونت طلب کی ۔ ان میں موزمبیق ،گھانا اور جمہوریہ کانگو بھی شامل ہے۔ تاہم اقتصادی حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔ 2017ء میں انہی ممالک نے دوبارہ 7.2 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جو 2014 کے قرضہ سے چار گنا زیادہ ہے۔
موجودہ آئی ایم ایف پروگرام نیا نہیں ہے۔ افریقی ممالک نے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں افریقی معاشی کساد بازاری کے دوران آئی ایم ایف سے رجوع کیا تھا۔ اس وقت آئی ایم ایف نے ورلڈ بینک کی شراکت داری کے ساتھ افریقی ممالک کو قرضہ فراہم کیا جس کے ساتھ سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اب یہ ممالک ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ بار بار قرضے لینے کے باوجود افریقی ممالک کے معاشی حالات جوں کے توں ہیں۔ 2016 میں آئی ایم ایف کے معاشی ماہرین نے اپنے ہی پروگرام کے تحت لگائے جانے والی بے جا شرائط کی نفی کی اور کہا کہ شرائط پر عمل درآمد عدم مساوات اور معاشی نمو میں رکاوٹ بنی ہیں۔
یہاں مصر کا ذکر کرنا بہت اہم ہے۔ مصر افریقی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے زیادہ قرضہ لیا ہے اور آئی ایم ایف کے روڈ میپ پر عمل پیرا ہے۔
مصر کے داخلی حالات کچھ بہتر نظر نہیں آتے۔ مصری حکومت نے 11 نومبر 2016ء کو 12 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ آئی ایم ایف نے اس پروگرام کے آخری جائزہ رپورٹ میں مصری حکومت کی مالی سادگی کے اقدامات کو سراہا ہے جس میں حکومت نے اخراجات اور سبسڈی میں کٹوتی، نجکاری اور کرنسی کی قدر میں کمی کی۔
2019ء کے پہلے تین مہینوں کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوگنا ہوگیا۔ 5 جولائی 2019 کو مصری حکومت نے تیل پر چوتھی بار سبسڈی ختم کی جس کی وجہ سے اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔
2011ء میں آئی ایم ایف کے پہلے پروگرام سے پہلے مصرمیں25.2 فیصدمصری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے تھے ،ان کی تعد ادبڑھ کر 32.5 فیصد ہوگئی ہے ۔ مصر 1970 کے وسط سے آئی ایم ایف پر انحصار کر رہا ہے۔ مصر کے معاشی حالات اس وقت بھی یہی تھے اور آج بھی انہی حالات سے نبردآزما ہے۔
آئی ایم ایف کے کامیاب پروگرام
ایم ایف پروگرام ابتدائی سالوں میں نسبتاً کامیاب تھے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء کے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر محسن ایس خان نے 1973ء سے 1988ء کے دوران 69 ترقی پذیر ممالک کی معاشی نمو کا جائزہ لیا۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف پروگراموں کے مختصر اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے اور ان ممالک کی ادائیگیوں کے توازن اور افراط زر کے اعداد و شمار بڑی حد تک مثبت ہیں۔
آئی ایم ایف کے کامیاب قرار دیے جانے والے پروگراموں 1980 کی دہائی میں میکسیکو ، ہندوستان اور کینیا کے قرض پروگرام شامل ہیں۔ آئرلینڈ نے ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ہندوستانی معاشی بحران اس وقت شروع ہواجب بھارت میں بیرونی ادائیگیوں میں اضافے کے ساتھ ادائیگیوں کا توازن بڑھ گیا اور ملک کو تجارتی توازن جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
خلیجی جنگ کے آغاز اور اختتام تک صورتحال اتنی سنگین ہوگئی کہ ہندوستانی زرمبادلہ کے ذخائر تین ہفتوں کی درآمدات پوری کر سکتے تھے اور بھارت دیوالیہ ہونے کے دہانے پرپہنچ چکا تھا۔
اس وقت کے وزیر اعظم پی ۔وی۔نرسمہا راؤ و اور وزیر خزانہ منموہن سنگھ کواپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔انہوں نے تنقید کو بالائے طاق رکھ کے ہندوستانی معیشت کو دو سال میں استحکام کی راہ پر گامزن کر دیا۔ 1994-97ء کے دوران 7.5 فیصد ریکارڈ ترقی ہوئی۔
آئی ایم ایف اور پاکستان
پاکستان کو دئیے جانے والے موجودہ قرضے کی کل مالیت 6 ارب ڈالر ہے جو 39 ماہ میں قسط وار دیا جائے گا۔ قرضے سے منسلک شرائط پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لئے پہلے 12 ماہ میں سہ ماہی بنیادوں پر حکومتی ’کارکردگی‘ کا جائزہ لیا جائے گا۔
اگرچہ قرضے کی آخری قسط مالی سال 23-2022ء کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کو مل جائے گی لیکن قرضے کی شرائط مالی سال 24-2023ء کے اختتام تک لاگو رہیں گی اور اسی لئے اس وقت تک آئی ایم ایف کے ریویو بھی جاری رہیں گے۔
قرضے کی بنیادی شرائط مندرجہ ذیل ہیں
1۔ مالیاتی استحکام کا حصول۔ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ٹیکس آمدن میں اضافہ کیا جائے اور حکومت کے ترقیاتی و دیگر(مثلاً سر کاری ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ) اخراجات اور عوامی سبسڈیوں میں کمی کی جائے۔
2۔ ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کو بہتر بنانا یا دوسرے الفاظ میں معیشت کے بیرونی شعبے کو مستحکم کرنا۔ اس مقصد کے لئے جہاں ایک طرف بے تحاشا نئے بیرونی قرضے(آئی ایم ایف قرضے کے علاوہ) حاصل کئے جائیں گے اور پرانے شارٹ ٹرم بیرونی قرضوں کو رول اوور کروایا جائے گا وہیں پیشگی شرط پوری کرتے ہوئے حکومت نے روپے کی قدر کو اسٹیٹ بینک کے عمل دخل سے آزاد کرا کے منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس سے اس کی قدر شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ خیال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے درآمدات میں کمی(مہنگی ہونے کی وجہ سے) اور برآمدات میں اضافہ(بنیادی طور پر مزدور کے سستا ہوجانے کے باعث) ہوتا جائے گا اور یوں تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو گی۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے معیشت کی لبرلائزیشن کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے گا۔ ان تمام اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔
3۔ روپے کی قدر میں گراوٹ سے پیدا ہونے والے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لئے اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرحِ سود میں اضافہ۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک شرحِ سود کو افراطِ زر سے کم از کم 1.5 فیصد زیادہ رکھنے کا پابند ہے۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ حکومتی اندازوں کے مطابق رواں مالی سال میں افراطِ زر 13فیصد سے بھی بڑھ جائے گا۔
4۔ بجلی اور گیس کی مد میں سبسڈی کا تقریباً خاتمہ کر دیا جائے گا ، صارفین سے ان مصنوعات کی پوری قیمت وصول کی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے اوگرا کی طرز پر نیپرا کو بھی نرخ مقرر کرنے کی مکمل خود مختاری دی جائے گی اورپیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی طرح بجلی کے نرخ بھی سہ ماہی بنیادوں پرایڈجسٹ کئے(یعنی بڑھائے) جائیں گے تاکہ 2020ء کے اختتام تک گردشی قرضوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
5۔ سرکاری اداروں کی نجکاری۔ اس کا اصل مقصد بیک وقت حکومتی اخراجات میں کمی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کے منافع بخش مواقع فراہم کرنا ہے۔ بھر پور منافع بخش اداروں جیسے نئے لگنے والے دو ایل این جی پاور پلانٹس، سرکاری ہوٹلز اور کچھ بینکوں کی نجکاری تو رواں مالی سال میں ہی کر دی جائے گی۔ بقیہ تمام اداروں کی ری سٹرکچرنگ یعنی ڈاؤن سائزنگ کی جائے گی، ان کے مزید حصے بخرے کئے جائیں گے اور ستمبر2020ء تک مکمل یا جزوی طور پر پرائیویٹائز کئے جانے والے اداروں کی فہرست کو حتمی شکل دی جائے گی۔ واضح رہے کہ پی آئی اے، سٹیل مل، سوئی گیس، واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں، ایئرپورٹس، ریلوے اور سرکاری تعلیمی اداروں اورہسپتالوں سمیت کوئی ایسا پبلک یوٹیلیٹی ادارہ نہیں ہے جو نجکاری کی کوششوں سے محفوظ رہے گا جن اداروں کی ری سٹرکچرنگ یا نجکاری ممکن نہ ہو اور وہ مسلسل خسارے میں بھی جا رہے ہوں، انہیں سرے سے بند کر دینے کی تجویز بھی رپورٹ میں شامل ہے۔