کراچی: (دنیا نیوز) کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہونے کے باوجود اندھیروں سے نہیں نکل سکا، وجہ شہر کو بجلی فراہمی کا ادارہ کےالیکٹرک، گزشتہ بارہ برسوں میں کے الیکٹرک کی جانب سے سسٹم میں محض ایک ہزار میگاواٹ کا اضافہ بڑھتی بجلی طلب پوری نہ کر سکا۔
کراچی کی شاہراہوں پر عوام نے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج، جلاو گھیراو اور دھرنے بہت کیے لیکن اب تو شہرکی تمام ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کے الیکٹرک کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایم کیوایم پاکستان، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ادارے کے خلاف سڑکوں پر نظر آئیں۔
سیاسی جماعتوں کا احتجاج ایک دن کا معاملہ نہیں، 2005 میں کے ای ایس سی کی نجکاری ہوئی اور 2009 میں ابراج گروپ نے کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کیا، اس نجکاری کے بنیادی مقامصد تھے کہ بڑی سرمایہ کاری کے تحت سسٹم کو بہتر بنایا جائے، میڑوپولیٹن شہر کے لیے بجلی کی مسلسل فراہمی،
قومی خزانے سے کمپنی کو سبسڈی کی شکل میں مالی بحران میں کمی، ادارے کی آپریشنل صلاحیت و مالی وسائل میں اضافہ، صارفین کو بہتر سروس کی فراہمی اور ادارے کی پیداواری لاگت میں کمی کرکے صارفین کے لیے ٹیرف میں کمی لائی جائے لیکن اب تک یہ محدود پیمانے پر ہی حاصل کیے جاسکے۔
کے الیکٹرک کی نجکاری بہت متنازع ثابت ہوئی اور آج بھی عدالتوں میں چیلنج کی جارہی ہے، نجکاری کے ایک دہائی بعد بھی متواتر بجلی بندش شہریوں اور کے الیکٹرک کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم نہ کرسکا، ساراسال محدود پیمانے پرجاری رہنے والی لوڈشیڈنگ گذشتہ کئی سالوں سے گرمیوں میں بحرانی صورتحال میں تبدیل ہوجاتی ہے، بجلی بندش کا دورانیہ چودہ سے سولہ گھنٹے تک پہنچنا معمول ہے جبکہ اوور بلنگ کے مسائل بھی شہریوں کی جان نہیں چھوڑتے۔
نجکاری کے بعد کے الیکٹرک کے سسٹم میں کچھ بہتری ضرور آئی لیکن اب بھی کمپنی کا ریوینیو جنیریشن 88 فیصد جبکہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات تیس فیصد تک ہیں۔ تیزی سے سالانہ بجلی کی بڑھتی طلب کے لیے کے الیکٹرک پچھلے بارہ سالوں میں محض ایک ہزار میگا واٹ ہی سسٹم میں بجلی کا اضافہ کر سکا۔ کے الیکٹرک کی اپنی بجلی پیداوار 2000 میگاواٹ، این ٹی ڈی سی سے 700 میگا واٹ، گل احمد اور ٹپال آئی پی پیز سے 300، کینپ سے 60 اورونڈ پاورپلانٹ سے 150میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جاتی ہے جو کل ملا کر 3200 میگا واٹ تک بنتی ہے جبکہ شہر کی طلب 3600 میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے۔ صورتحال ادارے کے قابو سے باہر نظر آتی ہے اور اسی لیے سی ای او کے الیکٹرک بھی شہریوں سے نادم ہیں۔
حکام کی یہ ندامت اپنی جگہ لیکن شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ شہری، صنعتکار، تاجر اور اب سیاسی جماعتیں بھی کے الیکٹرک کے خلاف کمربستہ ہیں۔ سی ای او کے الیکٹرک بجلی بحران کا ذمہ دار حکومت کو ٹہراتے ہیں، ان کے مطابق 2016 میں درآمدی کوئلے پر پاورپلانٹ لگانے کی اجازت نہ ملی جو صورتحال میں خرابی کا سسب بنا۔
ذمہ داری کس کی ہے اور اب یہ مسلہ کیسے حل ہوگا اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے لیکن اپنے حالیہ کراچی دورے میں وفاقی وزیر اسد عمر نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ہمراہ آئندہ سالوں میں بجلی بحران ختم ہونے کی نوید سنائی ہے۔
اگلے تین سالوں میں 2100 میگاواٹ یعنی کراچی کی بجلی کی ضرورت کا ستتر فیصد لانے کا یہ وعدہ وفا ہوگا یا نہیں یہ وقت واضح کرے گا لیکن ابھی بدترین بجلی بحران میں گھرے شہریوں کے لیے یہ ایک خواب سے کم نہیں۔