اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان دوبارہ ٹیک آف کرے گا، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آئی کیپ کے زیر اہتمام پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجٹ کی بہتری کیلئے سفارشات کو کھلے دل سے سنیں گے، خامیوں کو دور کرنے کیلئے دو کمیٹیاں تشکیل دیں گے، لوگ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کر رہے تھے، ہم نے معیشت کی بہتری کیلئے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کیے ہیں، پاکستان کی ترقی کیلئے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا جب صبح و شام ڈیفالٹ کی باتیں ہوں گی تو سرمایہ کار کو کیسے مطمئن کریں گے، تنقید کرنا بہت آسان ہے ہم سب کو ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا، ترقی کیلئے شرح نمو کو بڑھانا ہے، پاکستان کا مستقبل روشن ہے، 2013 سے 2017 کے دوران پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن تھا، عالمی مالیاتی اداروں کے عہدیدار پاکستان کے دورے کر رہے تھے، سٹاک مارکیٹ انڈیکس 50 ہزار پوائنٹس سے اوپر گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ اگلے دو سال بعد جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے، پاکستان دنیا کی 44 ویں معیشت بن چکا ہے، یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے، پاکستان کو جی ٹوئنٹی ممالک کے قریب ہونا چاہئے تھا، یہ مشکل صورت حال ہے، پاکستان کو اس سے باہر نکالنا ہے، ہم نے بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی ہے، دنیا میں اس وقت جیو پالیٹکس چل رہی ہے، پاکستان آگے جا سکتا ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 1998 میں ایٹمی قوت بننے کے بعد بھی ملک کو مسائل سے نکالا، اس وقت بھی ہم نے 2 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کیں، ہمیں الزام تراشی کے بجائے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، جب ہر وقت ڈیفالٹ کی رٹ لگائی جائے گی تو بزنس مین باہر چلا جائے گا، ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، اگر گھر میں تکلیف آجائے تو کیش فلو سے مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے، اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ بطور ایٹمی اور میزائل پاور ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے، نیا بجٹ معاشی ترقی کے اقدامات کی ترجیحات پر مبنی ہے، بلوم برگ کے مطابق 2014 میں پاکستان کی کرنسی سب سے زیادہ مستحکم تھی، ڈسپلن کے بغیر نہیں چلے گا، پانچ سال پہلے میری بات مانی ہوتی تو یہاں نہ کھڑے ہوتے، پاکستان کے 100 ارب ڈالر کے قرضے ہیں، گیس پائپ لائن سمیت پاکستان کے پاس قیمتی اثاثے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف گیس پائپ لائن کی مالیت 50 ارب ڈالر ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی برآمدات کے 90 فیصد کے مساوی رقوم بھیجتے ہیں، نئے بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی ہیں، وزیر اعظم کی منظوری سے حکومت نے ڈائمنڈ کارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے، ان کو اسلحہ لائسنس اور سفارتخانوں میں خصوصی سہولیات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 50 ہزار ڈالر سے زیادہ رقوم پاکستان بھجوانہ ہوں گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ صوبوں میں جس طرح رقوم خرچ ہونی چاہئے تھی نہیں خرچ کی گئیں، ہم نے جی ڈی پی سمیت بڑے شعبوں کی ترقی کا ہدف ساڑھے تین فیصد یا اس سے زیادہ رکھا ہے، یہ اہداف حقیقت پسندانہ ہیں، 9200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف سائنسی بنیاد پر رکھا گیا ہے، موجودہ مالی سال کے 11 ماہ میں مہنگائی اوسط 29 فیصد رہی ہے، اگلے سال مہنگائی کا ہدف 21 فیصد ہے، جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا نئے مالی سال کیلئے 223 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں، معاشی تنزلی کا رجحان روک دیا گیا، اب ہم استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، ہمارا ہدف پاکستان کو دوبارہ 24 ویں معیشت بنانا ہے، ہمارے سابق دور میں 70 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تھے، اس وقت یہ قرضے 100 ارب ڈالر ہیں، ریکوڈک کے اثاثوں کی مالیت 3 ہزار ارب ڈالر ہے، ہم ایک ساورن فنڈ بھی قائم کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ فنانس بل میں ترمیم کر سکتی ہے، اگست تک ہمارے پاس وقت ہے اور الیکشن وقت پر ہوں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ تمام اقتصادی جائزے کا وقت گزر چکا ہے، 9 واں اقتصادی جائزہ نومبر اور 11 واں اقتصادی جائزہ مئی میں ہونا تھا، آئی ایم ایف کی تمام تر پیشگی شرائط پر عملدرآمد کر لیا ہے، نواں ریو ہو جانا چاہیے، آئی ایم ایف کے ساتھ اسی ماہ معاہدہ ہو جائے گا۔