لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) پاکستان میں کل کرنسی کا 27 فیصد کیش کرنسی کی صورت میں بینکوں سے باہر موجود ہے، بھارت میں کیش کرنسی کی شرح 17 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں کیش کرنسی کی شرح 16 فیصد ہے۔
ملک میں اس وقت کل رقم 30 ہزار 967 ارب روپے موجود، جس میں سے 22 ہزار 593 ارب روپے نجی و سرکاری بینکوں میں جبکہ 8 ہزار 374 ارب روپے کیش کرنسی کی صورت میں موجود ہیں، یوں کل ملکی کرنسی کا 27 فیصد بینکوں کے باہر موجود ہے۔
وہ تمام رقم جو لوگوں کے پاس موجود ہو اور اسے بینک میں جمع نہ کرایا گیا ہو اسے کیش کرنسی سرکولیشن کہا جاتا ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق جون 2023 میں ملک میں 31 ہزار 530 ارب روپے موجود تھے، جس میں سے 22 ہزار 381 نجی و سرکاری بینکوں میں ڈیپازٹ تھے جبکہ 9 ہزار 149 ارب روپے کیش کرنسی کی صورت میں سرکولیٹ ہو رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو افغانستان کی غیر قانونی تجارت سے سالانہ 3 ارب ڈالر کا نقصان
گزشتہ حکومت کے اپریل 2023 میں اقتدار میں آنے کے وقت ملک میں 25 ہزار 747 ارب روپے موجود تھے، جس میں سے 17 ہزار 845 ارب نجی و سرکاری بینکوں میں جبکہ 7 ہزار 902 ارب روپے کیش کرنسی کی صورت میں سرکولیٹ ہو رہے تھے، یوں اپریل 2022 میں ملک میں موجود 31 فیصد رقم بینکوں سے باہر موجود تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ستمبر 2021 سے سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ میں موجود کیش کرنسی کی سرکولیشن میں کمی لانا ہے، تاہم ستمبر 2021 تا ستمبر 2023 کے دوران ملکی کیش کرنسی میں محض 4 فیصد ہی کمی آ سکی ہے جبکہ ماہانہ وار کیش کرنسی سرکولیشن کی اوسط شرح 29 فیصد رہی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کا اعلان کیا جائے گا، جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ مہنگائی پر لگام ڈالنے اور مارکیٹ میں موجود کیش سرکولیشن میں کمی لانے کیلئے مرکزی بینک شرح سود میں 100 سے 150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 22 فیصد سے بڑھا کر 23 فیصد یا 23.5 فیصد کا اعلان متوقع ہے۔
واضح رہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود بڑھانے کی وجہ ملک میں مہنگائی میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ کیش سرکولیشن میں بھی کمی لانا ہوتا ہے، موجودہ پالیسی سائیکل سٹیٹ بینک کا 16 واں پالیسی سائیکل ہے، جبکہ اس پالیسی سائیکل میں شرح سود میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، 16ویں پالیسی سائیکل میں ستمبر 2021 سے اب تک پالیسی ریٹ میں 15 فیصد (1500 بیسس پوائنٹس) اضافہ کرتے ہوئے شرح سود کو 7 فیصد سے بڑھا کر جون 2022 تک 22 فیصد کر دیا گیا، جبکہ جون 2022 سے ابتک شرح سود 22 فیصد پر برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاور ڈویژن کو ریونیو شارٹ فال کا سامنا، وزرات خزانہ نے فوری رقم فراہمی سے انکار کر دیا
مزید برآں سٹیٹ بینک کی موجودہ 16 ویں پالیسی سائیکل کے دوران ستمبر 2021 سے ستمبر 2023 کے دوران فی ڈالر ریٹ 132 روپے اضافے کے ساتھ 167 روپے سے بڑھ کر 299 روپے پر پہنچ چکا ہے، یوں موجودہ پالیسی سائیکل کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 79 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو ستمبر 2021 میں ملک میں کل 22 ہزار 447 ارب روپے موجود تھے، جس میں سے 15 ہزار 425 ارب روپے نجی و سرکاری بینکوں میں جبکہ 7 ہزار 22 ارب روپے کیش کرنسی کی صورت میں موجود تھے، یوں، کل ملکی کرنسی کا 31 فیصد بینکوں کے باہر موجود تھا۔
تاہم دو سال کے عرصے کے دوران ملک میں موجود کل رقم 8 ہزار 520 ارب روپے اضافے کے ساتھ 30 ہزار 967 ارب پر پہنچ چکی ہے، جس میں سے نجی و سرکاری بینکوں کے پاس موجود رقم 7 ہزار 168 ارب روپے اضافے کے ساتھ 22 ہزار 593 ارب روپے پر پہنچ چکی ہے جبکہ کیش کرنسی کی صورت میں موجود رقم 1 ہزار 352 ارب روپے اضافے کے ساتھ 8 ہزار 374 ارب روپے ہے، یوں، کل ملکی کرنسی کا 27 فیصد بینکوں کے باہر موجود ہے۔
سال 2023 میں ملک میں موجود کل کرنسی میں سے کیش کرنسی کی شرح کا ماہانہ وار جائزہ لیا جائے تو جنوری میں کیش کرنسی کی شرح 28 فیصد، فروری 29 فیصد، مارچ 29 فیصد، اپریل 30 فیصد، مئی 29 فیصد، جون 29 فیصد، جولائی 28 فیصد، اگست 28 فیصد جبکہ ستمبر میں کل ملکی کرنسی کا 27 فیصد کیش کی صورت میں بینکوں سے باہر موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جولائی کے مقابلے اگست میں ترسیلات زر میں اضافہ
اسی طرح موجودہ 16 ویں پالیسی سائیکل کے دوران مہنگائی کا موازنہ کیا جائے تو ستمبر 2021 میں ماہانہ وار مہنگائی کی شرح 9 فیصد تھی، جو اگست 2023 تک 27 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، اسی طرح اس تمام عرصے کے دوران ملک میں مہنگائی کی ماہانہ اوسط شرح 22 فیصد رہی۔
یاد رہے ملک میں مہنگائی کی ماہانہ وار شرح فروری 2023 میں 31.5 فیصد، مارچ 2023 میں 35.4 فیصد، اپریل 2023 میں 36.4 فیصد جبکہ مئی 2023 میں ریکارڈ 38 فیصد رہی، جس کے بعد اس میں ہر ماہ کمی دیکھی گئی، تاہم یکم ستمبر 2023 کو پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 15 روپے اضافہ کے ساتھ ساتھ بجلی کی فی یونٹ ریکارڈ قیمتوں سے ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ 15 ستمبر 2023 کو حکومت کی جانب سے پٹرول کی فی لٹر نئی قیمت متعارف کرائی جائے گی، جس میں فی لٹر پٹرول کی قیمت میں 12 سے 15 روپے تک کا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نگران وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز کا تنخواہ اور مراعات نہ لینے کا اعلان
یاد رہے کیش کرنسی میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے ہے، پاکستان میں کل کرنسی کا 27 فیصد کیش کرنسی کی صورت میں بینکوں سے باہر موجود ہے، بھارت میں کیش کرنسی کی شرح 17 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں کیش کرنسی کی شرح 16 فیصد ہے، ان حالات میں حکومت اور ملکی معاشی اداروں کیلئے ضروری ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے تاکہ ملک میں کیش اکانومی اور کیش سرکولیشن میں کمی لائی جا سکے۔