لاہور:(محمد احمد رضا) پاکستان کرکٹ کے بڑے برانڈ پی ایس ایل کے ساتویں ایڈیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلے دو روز میں ہونے والے ایک ایک میچ میںنقشہ یکسر مختلف نظر آیا اور یہ واضح فرق پچ کی تیاری سے پیدا ہوا۔ افتتاحی میچ میںمیزبان کراچی کنگزصرف 125رنز کا ہدف دے سکی جسے تین ہی وکٹ پر بآسانی پورا کر لیا گیا۔
اس لو اسکورنگ میچ پر کرکٹ شائقین و ماہرین کی شدید تنقید ہوئی۔ جس پر کرکٹ بورڈ حکام کی بھی آنکھیں کھلیں اور اچھی پچز کا چیلنج اور سبق یاد آ گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ نیشنل اسٹیڈیم میں نندی پور سے لائی گئی مٹی پر خاصی محنت ہوئی۔
اسے شاہکار بلکہ یادگار اسٹیڈیم بنانے کی ٹھان کر پی ایس ایل کی شروعات ہوئی جو مطلوبہ ہدف کو پورا کرنے کی صورت میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک ماہ سے تیار کی جانے والی پچ پر حد سے زیادہ رول کیے جانے سے پہلے میچ کے برعکس نتائج سامنے آئے۔
میچ تو ختم ہو گیا لیکن پی سی بی اور ایونٹ انتظامیہ کا نیا امتحان شروع ہو گیا۔ اگلے میچ کےلئے سب بڑوں نے سر جوڑ لیے اور دوسری پچ کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک ہی روز کی تیاری سے 28 جنوری کو ہونے والا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کا مقابلہ اعصاب شکن اور سنسنی خیز ثابت ہوا۔ سرفراز الیون کا 190 رنز کا ہدف کورونا زدہ ییلو شرٹس نے شعیب ملک کی قیادت میں پورا کر لیا۔
اس ہائی اسکورنگ میچ سے بورڈ اور لیگ انتظامیہ کو بڑی کامیابی یہ ملی کہ کرکٹ دیوانوںکواچھی گیم دیکھنے کا موقع ملا۔ یوں پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی و پرانی مینجمنٹ کے پچز کی تیاری، اسے انٹرنیشنل معیار کا بنانے کے حوالے سے سارے فیصلے درست ثابت ہونے لگے۔
جی ہاں! سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان ہی متحدہ عرب امارات سے غیر ملکی کیوریٹر اینڈی ایٹکنسن کو پاکستان لائے تھے۔ اسی دور میں پاکستان کرکٹ کے مستقبل کو اس حوالے سے بھی زرخیز بنانے کا پلان بنا تھا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی چھتری تلے امپائرنگ، ریفریز، کوچز کے ساتھ کیوریٹرز کی تیاری کو بھی ازحد ضروری قرار دیا گیا تھا۔ یعنی تب کا بویا بیج اب پھلدار ہونے لگا ہے۔ گذشتہ ماہ بھی اس کورس کو پھر سے دہرایا گیا ہے۔
اس حوالے سے ایک مثال بھی قائم ہو چکی ہے۔ 2000ءمیں وانڈرر اسٹیڈیم کے کیوریٹر کرس اسکاٹ کو ان کی بہترین خدمات پر مین آف دی میچ ایوارڈدیا گیا تھا۔انہوں نے میزبان جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈکے درمیان شیڈول میچ کو شدید بارش کے باوجود پچ کو کھیلنے کے قابل بنایا تھا۔
موجودہ چیئرمین رمیز راجہ کی پچز کے حوالے خواہش ”ڈرا پ اِن“ کی ہے، جو حالات و واقعات کے اعتبار سے نامناسب اور غیر موزوں ہے۔ پاکستان کو قدرت کی بہت زیادہ نوازشات ہیں۔ ہمیں آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور خاص طور پر یو اے ای کی طرح ریڈی میڈ پچز کا سہارا لینے کے بجائے قدرتی ماحول اور موسم کے مطابق پچز تیار کر کے پاکستان کرکٹ کا مستقبل زیادہ مضبوط کرنا چاہیے۔ یعنی شمالی علاقہ جات مطلب فُل ٹھنڈے علاقوں میں انگلش اسٹائل کی پچز بنائی جائیں، موسم اور ہوائیں بدلتے میدانی علاقوں میں سیمنگ اور اسی طرح کراچی جیسے سمندری ہواوں والے شہر میں کیربئنز پچز کے مزے لیے جائیں۔