بچوں کی جسمانی سزا کیخلاف شہزاد رائے کی درخواست پر وزارت قانون سے جواب طلب

Last Updated On 05 March,2020 04:20 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف شہزاد رائے کی درخواست پر وزارت قانون سے جواب 12 مارچ تک طلب کر لیا۔

وفاقی دارالحکومت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے گلوکار کی درخواست پر وزارتِ قانون سے جواب طلب کر لیا۔

کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہئے۔

گلوکار شہزاد رائے کا کہنا ہے کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے، جتنا جنسی ہراساں کرنا، بل کا قومی اسمبلی میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔

وزارت داخلہ نے عدالت عالیہ کو آگاہ کیا کہ بچوں پر تشدد کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا،

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ شکایت تب ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوتا ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی قانون سازی کا کیا بنا ،یہ وفاقی حکومت کا کام ہے

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے بچوں پر تشدد روکنے کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا انہوں نے بل پر اعتراض کردیا۔

وزرات قانون نے کہا کہ یہ بل وزارت انسانی حقوق نہیں بلکہ داخلہ کا اختیار ہے۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بچوں پرتشدد کے تمام واقعات اسلامی تعلیمات پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ بطور سوسائٹی ہم اسلامی تعلیمات پرعمل نہیں کرتے، سخت سزاوں سے نہیں مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے سے بچوں پرتشدد روکا جاسکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ مارچ 2019ء کو بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور کرچکی ہے، حکومت بچوں پر تشدد روکنے کا بل پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت قانون افسر مقرر کرے جو بتائے کہ بل پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا، عدالت عالیہ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے اسلام آباد میں جسمانی سزا پر پابندی لگادی ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی حمایت کرتے ہیں

گلوکار شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جنسی ہراساں کرنا، بل کا قومی اسمبلی میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے،

دوسری طرف عدالت نے کیس کی مزید سماعت تیس مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ عدلت کے مطابق آئندہ سماعت پر بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست فیصلہ کردیا جائے گا۔