لاہور: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر ایک ویڈیو لاکھوں مرتبہ دیکھی جا رہی ہے، اس ویڈیو کو جنوری 2020ء کو اپ لوڈ کیا گیا تھا، اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ دو شخص پاکستان میں ہندو خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہ ویڈیو جعلی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ جعلی ویڈیو پاکستان کے نام سے پھیلائی جا رہی ہے، حالانکہ ہماری تحقیقات کے بعد پتہ چلا ہے کہ یہ ویڈیو بھارت کی ہے، بھارتی ریاست راجستھان میں 2017ء کے دوران ایک خاتون کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ بچے کو اغواء کر رہی تھی جس کے بعد دو افراد اس خاتون پر تشدد کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو 14 جنوری 2020ء کو فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی۔ نیچے تصویر میں اس کا عکس بھی دکھایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق یہ ویڈیو ایک منٹ 49 سکینڈ کی ہے، اس چھوٹے سے کلب کو 23 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جبکہ 1 ہزار ایک سو مرتبہ اسے شیئر کیا جا چکا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق اس ویڈیو کے کیپشن میں ’ہندی‘ زبان میں لکھا ہے کہ ہندو خواتین کو پاکستان میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو لوگ بھارت میں متنازع شہریت قانون پر باتیں کرتے ہیں کیا وہ اس ویڈیو پر کچھ بولنا پسند کریں گے۔
یاد رہے کہ بھارت میں 11 دسمبر 2011ء کو ایک متنازع بل منظور کیا گیا تھا جس میں ہمسایہ ممالک سے آنے والے لوگوں کو شہریت دی جائے گی، شہریت پانے والے افراد میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں ان مظاہروں کے دوران تقریباً 35 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں اور نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
نیچے دیئے گئے ایک سکرین شاٹ میں اس ویڈیو کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ یہ ویڈیو بھارتی ریاست راجستھان کی ہے، جہاں پر ایک خاتون کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ خاتون بچے کو اغواء کرنے والی تھی جسے پکڑنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس ویڈیو کا غلط مطلب نکال کر لوگ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے لگے۔