غیر مستند خبروں کا مسئلہ، فواد چودھری نے ایک اور بیان جاری کردیا

Published On 16 October,2021 07:40 pm

اسلام آباد: (اے پی پی): فاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ خبر پھیلانے کے ذرائع زیادہ ہونے سے فیک نیوز کا مسئلہ شروع ہوا، بھارت میں 785 ایسی ویب سائیٹس ہیں جو پاکستان کے خلاف فیک نیوز پھیلا رہی ہیں، بھارت نے مینار پاکستان واقعہ کے بعد پاکستانی معاشرے پر بے جا تنقید کی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عرب نیوز کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

فواد چودھری نے کہا کہ آج میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج فیک نیوز ہے، پہلے خبر پھیلانے کے ذرائع محدود تھے، لوگوں کو اصل خبر تک پہنچنے میں وقت لگتا تھا لیکن اب خبر پھیلانے کے ذرائع زیادہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے فیک نیوز کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1990ءکی دہائی کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب آیا تو خبر پھیلانے کے ذرائع بھی بڑھتے گئے، اب فیک نیوز اور اصل خبر میں توازن پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش ہے جو موجودہ دور میں میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں فیک نیوز کا بحران ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے، جس طریقے سے ٹیکنالوجی بڑھی، فیک نیوز کے حوالے سے اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوا۔ خبر دینے والوں کی تربیت ضروری ہے تاکہ وہ اصل اور جعلی خبر میں فرق کر سکیں۔ حال میں پنڈورا لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر پی ٹی وی کے بینر سے ایک فیک نیوز جاری ہوئی جس میں ایک سیاستدان کے صاحبزادے کی آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا گیا، یہ خبر پرائیویٹ میڈیا نے بغیر تصدیق کے چلا دی جو تیزی سے ہر جگہ پہنچی۔

فواد چودھری نے بتایا کہ امریکا میں صدر اوباما نے 2013ءمیں کہا تھا کہ جدید دور میں حکومتوں کو سب سے بڑا چیلنج فلو آف انفارمیشن کا ہے کیونکہ اسے پارٹیوں، حکومتوں اور ممالک کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت نے غیر سیاسی واقعات کو سیاست کے لئے استعمال کیا، بھارت نے 785 ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا، غلط خبریں چلائیں، یہ ویب سائٹس بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی اے این آئی سے لنک تھیں اور وہ ہندوستان کے بڑے چینلز کے ساتھ لنک تھی، ان کا کام صرف پاکستان کے بارے میں فیک نیوز جنریٹ کرنا تھا اور اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں نور مقدم کیس اور لاہور میں مینار پاکستان واقعہ کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن بھارتی ویب سائیٹ نے صرف یہ بتانے کے لئے کہ پاکستان میں خواتین کتنی غیر محفوظ ہیں، اس پر 175 ویڈیوز تیار کیں ان واقعات پر لاکھوں ٹویٹس ہوئے، سوشل میڈیا پر خبریں پھیلیں، کچھ ہمسایہ ممالک کی انٹیلی جنس نیٹ ورک سے انہیں سپورٹ ملی، ہمارا اپنا میڈیا بھی اس میں شامل ہو گیا۔ دہلی میں ریپ کیس ہوا، ہندوستان نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ صرف دہلی میں نہیں ہر جگہ ہو رہا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے تو اصل اور جعلی خبر میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اس بارے میں صحافیوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ جب وہ 2018ءمیں وزیر اطلاعات بنے تو ہمارا ڈیجیٹل میڈیا اتنا مضبوط نہیں تھا۔ وہ 2015ءسے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے معاملات دیکھ رہے تھے، ہمارے پاس پی ٹی آئی میں سوشل میڈیا کے لوگ حکومت سے بہت آگے تھے، ہم نے اپنے سوشل میڈیا کو جدید بنانے کا فیصلہ کیا، اب الحمد للہ ہمارے ڈیجیٹل میڈیا ونگ کا مقابلہ کسی بھی عالمی ڈیجیٹل میڈیا سے کیا جا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ہم نے سرکاری خبر رساں ادارہ اے پی پی کو ڈیجیٹل نیوز ایجنسی میں تبدیل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں حالیہ بحران کے دوران بہت سی متضاد خبریں آ رہی تھیں، اس وقت سے ہم نے کوشش کی کہ قومی و عالمی میڈیا کو اصل صورتحال سے آگاہ رکھا جائے، اب بھی ہماری یہی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کچھ قوانین بنانے کی ضرورت ہے جن میں اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا عنصر بھی شامل ہونا چاہئے۔
 

Advertisement