نیویارک: (ویب ڈیسک) کرونا وائرس کے دنیا بھر میں بڑھتے کیسز کے سبب لوگوں میں خوف و ہراس کی کیفیت چھا گئی ہے، عالمی ادارہ صحت نے اسے جہاں عالمگیر وبا قرار دے دیا ہے وہاں اب تک 4 ہزار 6 سو 33 افراد مرض کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
کرونا کی ابتدائی تشخیص بخار، کھانسی، سانس میں کمی اور عام زکام جیسی کیفیت سمیت دیگر علامات سے ہوتی ہے۔ ماہرین طب کا کہنا ہےکہ یہ وائرس جسم میں مندرجہ ذیل تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ امریکی ماہر طب ایمی کامپٹن کے مطابق کرونا کا وائرس جسم میں داخل ہو کر انسانی خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کے معمول کے افعال روک کر اپنی بڑھوتوی شروع کر دیتا ہے، اس طرح انسانی خلیے اپنا کام چھوڑ کر کرونا وائرس بنانے لگتے ہیں۔
جوں جوں کرونا وائرس کی تعداد انسانی جسم میں بڑھتی ہے، یہ سانس کی نالی پر اثر انداز ہو کر گلے کی خرابی کا سبب بنتے ہیں، آہست آہستہ وائرس پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے اور خون میں آکسیجن کی سپلائی متاثر کرنے لگتا ہے۔ انسانی خلیوں میں کاربن ڈٓآئی آکسائیڈ جمع ہونے لگتی ہے۔ پھیپھڑوں میں سوجن کے سبب نمونیہ کی علامات نمودار ہوتی ہیں اور انسان کی سانس لینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صورتحال مزید تشویشناک تب ہوتی ہے جب پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے اور مریض کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اس صورتحال میں مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
شکاگو سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر شو یوان ژیاو کا کہنا تھا کہ وائرس نیا ہونے کے سبب پھیپھڑوں میں انفیکشن کی تشخیص نہیں ہو سکی، جس پر چین کے ڈاکٹروں نے اکثر مریضوں کو کرونا سے کلئیر قرار دے کر گھروں کو بھیج دیا جو خاندان کے دیگر افراد میں وائرس پھیلنے کا سبب بنا اور یوں چین میں وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔
ڈاکٹر فلپ نے بتایا کہ کرونا صرف پھیپھڑوں کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ یہ اعضائے نظام ہضم اور آنتوں کو بھی متاثر کرتا ہے جس کے سبب بعض مریضوں میں ڈائریا جیسی علامات بھی ظاہر ہوئیں۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے 80 فیصد افراد میں مرض کی کم شدت والی علامات ظاہر ہوئی ہیں جبکہ صرف 20 فیصد ہی زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ انسانی قوت مدافعت جتنی زیادہ مضبوط ہو گی اتنا ہی اس بیماری سے اموات کی شرح میں کمی ہونے کا امکان ہے۔