نیو یارک: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس مہلک وباء کے باعث تقریباً دو لاکھ کے قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، اسی دوران امریکا، یورپ سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک اس وباء کی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں، برطانیہ میں اس ٹرائل کا آغاز گزشتہ روز ہو گیا ہے۔ تاہم امریکا سے ایک خبر آئی ہے جس میں سائنسی تحقیق کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’دھوپ‘ کورونا وائرس کو تیزی سے تباہ کرتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سینیئر امریکی عہدیدار نے تازہ سائنسی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کہ سورج کی روشنی کورونا وائرس کو تیزی سے ختم کرتی ہے۔ تحقیق کو ابھی عوامی سطح پر پیش نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس کی مزید چھان بین ہونا ہے۔
امریکا کی ہوم لینڈ سکیورٹی کے سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ مشیر ویلیم برائن نے وائٹ ہاؤس میں رپورٹروں سے گفتگو میں کہا کہ دھوپ میں موجود بالائے بنفشی شعاعوں کا کورونا وائرس سے زبردست اثر دیکھا گیا ہے۔ گرمیوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی ہو سکتی ہے۔
ویلیم برائن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا اب تک کا اہم ترین مشاہدہ یہ ہے کہ دھوپ میں ہوا اور سطحوں پر موجود وائرس پر طاقت ور اثرات پڑتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کے تناسب کے بھی وائرس پر زبردست اثرات دیکھے ہیں۔ درجہ حرارت اور نمی میں اضافے جیسا ماحول وائرس کے خلاف جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیقی رپورٹ ابھی عام نہیں کی جا رہی ہے اور اس لیے اس پر آزاد ماہرین کی رائے کا حصول ممکن نہیں۔ ابھی واضح نہیں کہ امریکا میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے ماہرین نے وائرس پر دھوپ کے اثرات کے جائزے کے لیے کون سے سائنسی طریقہ ہائے کار کا استعمال کیا ہے۔
تاہم یہ بات اہم ہے کہ دھوپ میں موجود الٹراوائلٹ ریز یا بالائے بنفشی شعاعوں میں سینیٹائزر ایفکٹ موجود ہوتا ہے، کیونکہ ان شعاعوں میں موجود تابکاری وائرس کے جینیاتی مواد کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کی وجہ سے وائرس میں اپنی کاپیاں تیار کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں اہم سوال یہ ہے کہ بالائے بنفشی شعاعیں کس شدت کی ہوں تو وہ کورونا وائرس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں؟ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس حوالے سے لیبارٹری میں کی جانے والی تحقیق میں گرمیوں کی دھوپ کا درست متبادل استعمال کیا گیا یا نہیں؟
ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی ٹیکسرکانہ سے وابستہ حیاتیاتی سائنس کے شعبے کے سربراہ بینجمن نوئمین کا کہنا تھا کہ یہ جاننا بہت اہم ہو گا کہ اس سلسلے میں تجربات کس طرح کیے گئے۔
نوئمین کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ کوئی تجربہ ٹھیک کیا گیا ہے یا غلط، اہم یہ ہے کہ وائرس پر تحقیق کرتے ہوئے مختلف چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
برائن نے سلائیڈز پر امریکا کی قومی بائیوڈیفنس تجزیاتی و انسدادی مرکز میری لینڈ میں کی جانے والی تحقیق وائٹ ہاؤس میں مختصر انداز سے پیش کی۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ 21 سے 24 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کے 20 فیصد تناسب میں کسی خشک اور سخت سطح پرکورونا وائرس گھٹ کر نصف ہو جاتا ہے۔