جارجیا: (ویب ڈیسک ) ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہسپتال اور کلینکس جس قدر صاف ہونگے ان سے مریضوں میں اینٹی بایوٹک مزاحمت (ریسسٹنٹ) اتنی ہی کم ہوگی اور یوں اس عمل سےبے شمار جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے جریدے میں شائع مقالے میں کہا گیا ہے کہ پہلی بار آلودہ اور گندے ہسپتالوں اور مریضوں میں بے اثر ہوتی ہوئی اینٹی با ئیوٹک ادویات کے درمیان ایک تعلق دریافت ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتالوں کو صاف رکھنا قدرے آسان اور سستا نسخہ ہے اور خود مریض کے لیے بھی یہ بہترین عمل ہے، تاہم اینٹی بائیوٹک ادویات کے سامنے بیکٹیریا اور جراثیم خود کو بدل کر مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور ہماری تمام دوائیں بے اثر ہوکر رہ گئی ہیں۔
مقالے میں بتایا گیا ہے کہ اب معلوم ہوا کہ گندے ہسپتال کے ماحول میں بیکٹیریا سخت جان ہورہے ہوتے ہیں ، جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر کرسٹوفر وولائن والڈیفوٹ اور ان کے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ خود امریکا میں بھی کئی ہسپتال حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد نہیں کر رہے ہیں ۔
اس ضمن میں انہوں نے آلودہ ہسپتالوں اور بیکٹیریا کی مزاحمت پر ایک ریاضیاتی ماڈل بنایا ہے ، یہ ماڈل بتاتا ہے کہ ہسپتال میں ناکافی صفائی سے کس طرح اور کیوں یہ جراثیم مضبوط ہوتے جاتے ہیں؟
اس مقالے میں امراض سے بچاؤ کے یورپی مرکز کا ڈیٹا بھی لیا گیا ہے، یورپ 19 ممالک میں 691 اسپتالوں اور کلینک کا ڈیٹا لیا گیا ہے ، صفائی کے صرف ایک طریقے یعنی اسٹاف کی جانب سے الکحل والے سینیٹائزر کے استعمال سے ہی اینٹی بیکٹیریا مزاحمت میں کمی سامنے آئی ہے ۔
انہوں نے زور دیا کہ ہسپتالوں، تجربہ گاہوں اور کلینکس کو ہر صورت صاف رکھا جائے جبکہ اسٹاف کو ہر طرح کی تربیت فراہم کی جائے انہی طریقوں کو اپناتے ہوئے ہم تیزی سے بدلتے جراثیم کے سیلاب کو روک سکتے ہیں۔