لاہور: (ویب ڈیسک) بلوچستان اور سندھ آمنے سامنے، "کتے کی قبر" پر جھگڑا، سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ "کتے کی قبر" کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا، سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع اس علاقے کو "کتے کی قبر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ "کتے کی قبر" کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا، سندھ کی سرحد پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔ نثار کھوڑو نے پریس کانفرنس کے دوران 1876 کا گزٹ بھی دکھایا اور بتایا کہ "کتے کی قبر" کا علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جو کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈا علاقہ ہے اور گورکھ ہل سٹیشن سے بھی بلند ہے۔
پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو کا کہنا تھا کہ انگریز دور حکومت سے "کتے کی قبر" کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے۔ سروے آف پاکستان میں بھی اس کی شہادت موجود ہے لیکن اب اس پر بلوچستان کا دعویٰ سمجھ سے بالاتر ہے۔
واضح رہے کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں میں "کتے کی قبر" کے علاقے کو صوبہ سندھ کے انتخابی حلقے شہداد کوٹ قمبر میں شامل کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس اقدام کے بعد یہ تنازع سامنے آیا جب بلوچستان کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا اور 3 رکنی کمیٹی بنائی گی۔
بی بی سی کے مطابق "کتے کی قبر" کے علاقے کے بارے میں سندھ کے نامور ادیب مرزا قلیچ بیگ نے لکھا ہے کہ ایک شخص سو روپے کا مقروض تھا اس نے اپنا کتا گروی رکھ کر سو روپے کا قرض لیا۔ جب اس کے پاس سو روپے ہوگئے تو وہ ادائیگی کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اس نے دیکھا کہ اس کا کتا آرہا ہے وہ اس پر سخت ناراض ہوا اور کتا اس کی لعن طعن سن کر وہیں مرگیا۔ کتے کا مالک قرض کی ادائیگی کے لیے جب پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ کچھ چوروں نے قرض دینے والوں کے گھر کو لوٹ لیا تھا اور کتے کی مدد سے وہ سامان برآمد ہوا، جس کی ملکیت سو روپے سے کہیں زیادہ تھی اس لیے انہوں نے کتے کو رہا کر دیا۔ مالک کو یہ سن کر دکھ پہنچا اور اس نے واپسی اسی جگہ پر کتے کی قبر تعمیر کرائی۔ یہ قبر قدیم دور میں تعمیر کی گئی ہے جس کو دیگر کلاسیکل قبروں کی طرح پتھروں سے بنایا گیا ہے، یہ قبر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔