لاہور: ( تجزیہ :سلمان غنی) حاضری کے حوالے سے مینار پاکستان پر عمران خان ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہے لیکن عمران خان اس جلسہ میں کوئی بڑا نعرہ یا پیغام دینے میں ناکام رہے، جس کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ اس نعرے اور پیغام کو لیکر نکلیں گے تو ان کی بڑی پذیرائی کا سامان ہو گا۔ جہاں تک عمران خان کے گیارہ نکات کا تعلق ہے تو انہیں روایتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور یہ وہی نکات ہیں جن کا اظہار دیگر قومی قائدین کی جانب سے گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اور جب خود تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کررہی ہو تو ان کی لیڈر شپ شوکت خانم ہسپتال اور ورلڈکپ کا کریڈٹ لینے پر ہی مجبور ہے تو اسے ان کی کوئی بڑی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
گیارہ نکات کا تعلق ملک کو درپیش سلگتے مسائل سے تو ہے لیکن عمران خان کی جانب سے ان کے اظہار کے بعد یہ سوال بھی کھڑا ہوگیا ہے کہ جن نکات کا اظہار کیا جا رہا ہے خود پانچ سال کے پی کے حکومت میں رہتے ہوئے ان پر عملدآمد میں کیا رکاوٹ تھی، احتساب کا نظام کیوں نہ چل سکا؟ تعلیمی ایمرجنسی کیوں نہ نافذ ہو سکی، نئے تعلیمی اداروں کے قیام میں کیا رکاوٹ تھی ، ہائیڈرو بجلی گھر بنانے کا عمل کیو ں کارگر نہ ہو سکا۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پولیس میں اصلاحات ضرور ہوئی ہیں مگر تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو سکا۔
جہاں تک مینار پاکستان جلسہ میں اہل لاہور کی شرکت کا سوال ہے تو جس طرح موثر انداز میں تشہری مہم چلائی گئی تھی اس تعداد میں اہل لاہور اس میں شامل نہیں تھے ، البتہ دیگر شہروں سے خصوصاً کے پی کے سے لوگو ں کی بڑی تعداد جلسہ میں شریک ہو ئی تھی ۔ مینار پاکستان جلسہ میں ایسے دعوے بھی سننے میں آ رہے تھے کہ دیگر جماعتوں کی طرح خاص طور پر مسلم لیگ ن کے چند بڑے اور موثر ارکان اسمبلی کی شرکت ہو گی ایسا بھی ممکن نہ ہو سکا جس میں میڈیا کی دلچسپی تھی ۔جلسہ کی تعداد اور کامیابی پر آنیوالے دنوں میں اظہار خیال ہو گا البتہ جلسہ کے سیاسی اثرات اس طرح قائم نہ ہو سکے جو30اکتوبر 2011 کے جلسے میں ہوئے اور ملک میں سیاسی تبدیلی کے نعرے کو پذیرائی ملی تھی اور عمران خان نے ٹیک آف کیا تھا۔