نواز شریف کا قطری سرمایہ کاری، کیپیٹل ایف زیڈ ای سے اظہارِ لاتعلقی

Last Updated On 22 May,2018 11:46 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن فلیٹس ریفرنس میں 128 میں سے 123 سوالات کے بیان قلمبند کرا دیئے، بدھ کو بیان مکمل کر لیں گے۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا حسن حسین اپنے قول و فعل کے خود ذمہ دار ہیں، ان کا مفرور ہونا میرے خلاف استعمال نہین کیا جا سکتا۔

 احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب ریفرنس کی سماعت کی۔ نواز شریف کے بیان کے دوسرے روز نیب نے خواجہ حارث کی جانب سے دستاویزات پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا بیان یو ایس بی میں ڈال کر دے دیں، عدالت کا وقت بچ جائے گا۔ سابق وزیراعظم نے کہا گلے میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے اگر اعتراض ہے تو خود بیان پڑھ دیتا ہوں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قطر سے کسی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا، ورک شیٹس کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا، قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے تاہم قطری شہزادے سے کسی خط و کتابت میں شامل نہیں رہا۔ قطری شہزادے کی پیشکش کے باوجود جے آئی ٹی نے بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں:لندن فلیٹس کا کبھی حقیقی یا بینی فشل مالک نہیں رہا: نواز شریف کا بیان

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ حدیبیہ پیپرز مل اور التوفیق کے درمیان کسی اسٹیلمنٹ کا حصہ تھے نہ کیپٹل ایف زیڈ ای کے مالک، ڈائریکٹر یا شیئرز ہولڈر، واجد ضیا نے قانون کو روندتے ہوئے مذموم مقاصد کیلئے جفزا اتھارٹی کا سرٹیفکیٹ پیش کیا، سرٹیفکیٹ اور تنخواہ کی ادائیگی کے سکرین شاٹس کو شواہد کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ نواز شریف نے کہا حسن اور حسین مفرور ہیں لیکن اس بات کو میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا اختر راجہ واجد ضیا کے کزن ہیں، انکا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی، جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی، جیرمی فری مین کے پاس ان ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی۔ نواز شریف نے بتایا کہ اختر راجہ اور جے آئی ٹی نے جیرمی فری مین سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی نیب تفتیشی افسر نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔