لاہور: (روزنامہ دنیا) چند برس قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک عام امریکی دن میں 34 گیگا بائٹس مواد اور ایک لاکھ الفاظ کی معلومات ’’ہضم‘‘ کرتا ہے۔ یقینا اپنے آباؤ اجداد کی نسبت ہمیں بہت زیادہ معلومات مل رہی ہیں۔ اب سمارٹ فون پر وڈیوز اور کتابیں کثرت سے دستیاب ہیں جبکہ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کو بہت فالو کیا جاتا ہے۔
تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ معلومات کا یہ سیلاب ہمارے اوپر بہت اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس کا اثر مثبت ہونا چاہیے، مگر یہ کیسے ہو؟
مفید معلومات کو پہچانیں:
کچھ اچھی کہانیاں پڑھنا بہت مدد گار ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ لٹریری فکشن میں بنیادی شے یہ ہے کہ جب آپ کسی ناول کے کرداروں کو سمجھنے لگتے ہیں تو اس سے تخلیقی و دانشورانہ مہارتیں بڑھتی ہیں۔
یہ سمجھ بوجھ کہ دوسرے افراد کی بھی اپنی سوچ اور احساسات ہوتے ہیں، ماہرین نفسیات کے خیال میں نظریہ ذہن کی تشکیل کرتا ہے۔ نفسیاتِ نمو (ڈویلپمنٹ سائیکالوجی) کے ماہرین کا خیال ہے کہ نظریۂ ذہن کی تشکیل اس وقت شروع ہو جاتی ہے جب بچے رینگنا شروع کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ اس کی نمو ہوتی جاتی ہے۔ پڑھنے سے دنیا کو دوسروں کی آنکھ سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس صلاحیت میں اضافے کے لیے فکشن پڑھیں، مگر اچھی۔
خبریں اور مضامین ہمیں نئے انداز سے سوچنے اور عمل کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ ہم انہیں دوسروں سے شیئر کرتے ہیں، ان پر بات کرتے ہیں، کافی دیر ان کے بارے میں سوچتے بھی رہتے ہیں۔ یہ ہمیں دنیاوی معاملات کو گہرائی سے دیکھنے کی اور معانی تلاش کرنے کی بصیرت عطا کرتے ہیں۔
نقصان دہ معلومات سے گریز:
دوسری طرف ایسا بیانیہ ہوتا ہے جو تھکا دیتا ہے اور ایسا بھی جو نقصان پہنچاتا ہے۔ مستقلاً منفی، اداس، دکھ بھرا، پُرتشدد اور فحش مواد پڑھنا اور دیکھنا نامناسب ہے۔ غیرضروری معلومات اور اشتہارات میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں وہی کھانا چاہیے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور جو مفید ہے، معلومات کے بارے میں بھی ہمارا رویہ یہی ہونا چاہیے۔ آپ اپنے ذہن میں کس طرح کے خیالات اور کس قسم کی سوچ چاہتے ہیں؟ کچھ دیکھتے اور پڑھتے وقت یہی ذہن میں رکھیے۔
مقدار:
یہ ممکن ہے کہ مواد مناسب ہو، پھر بھی وہ بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اتنا کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے لیے ہے، لیکن سب پر نظر کیسے ڈالیں۔ ایسے میں آپ کو اس سب ’’اچھے‘‘ مواد میں سے انتخاب کرنا ہوگا، کیونکہ عملاً یہ ممکن نہیں کہ آپ سب کچھ پڑھ اور دیکھ لیں۔
اپنا آپ:
ہر روز اتنی معلومات میسر آتی ہیں کہ انہیں ہضم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کوشش میں انسان تھک سا جاتا ہے اوردباؤ بھی محسوس کرتا ہے۔ بلاشبہ ہمیں دنیا کے بارے میں خبر ہونی چاہیے اور معلومات کا تبادلہ بھی کرنا چاہیے۔ لیکن بعض اوقات ہمیں ’’بے خبر‘‘ بھی ہو جانا چاہیے۔ کچھ اور کام کرنے بھی ضروری ہیں جیسا کہ فطرت کے نظارے دیکھنے کے لیے پیدل چلنا، مراقبہ اور ورزش وغیرہ۔ ہمیں اپنے آپ پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں صرف باہر کی خبر نہیں رکھنی بلکہ اپنے اندر کی خبر بھی رکھنی ہے۔
تحریر: ترجمہ: رضوان عطا