ن لیگ ، تحریک انصاف سوشل میڈیا پر بھی آمنے سامنے

Last Updated On 22 June,2018 03:51 pm

لاہور (دنیا الیکشن سیل ) سوشل میڈیا کے سب سے موثر سمجھے جانے والے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر تحریک انصاف 30 لاکھ سے زائد ٹویٹر فالورز کے ساتھ پہلے، مسلم لیگ ن 9 لاکھ سے زائد فالوورز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ سمیت دیگر ممالک میں انتخابی عمل کے دوران سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھانے کی روایت پاکستان بھی پہنچ گئی۔ 2018 کے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا مہم شروع کر دی۔

تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، اور مسلم لیگ نواز کے سوشل میڈیا سیلز سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے سب سے موثر سمجھے جانے والے پلیٹ فارم ٹویٹر پر تحریک انصاف 30 لاکھ سے زائد ٹویٹر فالورز کے ساتھ پہلے، مسلم لیگ ن 9 لاکھ سے زائد فالوورز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ فیس بک پر تحریک انصاف 50 لاکھ سے زائد فیس بک فالوورز کے ساتھ پہلے، جماعت اسلامی فیس بک کے 39 لاکھ کے ساتھ دوسرے جبکہ مسلم لیگ ن فیس بک کے 26 لاکھ سے زائد فالوورز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

فیس بک کے جاری کردہ ڈیٹا اور اعداد و شمار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے لیے بہترین ٹیم ہائر کی اور دگنی رقم اور وسائل خرچ کیے۔ بلومبرگ کے مطابق ٹرمپ اور ہیلری دونوں نے فیس بک کو فوکس کیا ٹرمپ نے اس مد میں چوالیس ملین ڈالر خرچ کیے جبکہ ہیلری کلنٹن نے اٹھائس ملین ڈالر لگائے۔

سوشل میڈیا کی تخلیق کا مقصد تفریح اور فن تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باقاعدہ طور پر رائے سازی کا ایک ٹول بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی تعداد اکثر ٹین ایجرز پر مشتمل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک نوجوان مہینے کے ایک سو چالیس گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ آئین کے مطابق اٹھارہ سال کا نوجوان حق رائے دہی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے خصوصی اقدامات کر رہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے فعال نظر اتی ہے۔ گزشتہ انتخاب سے قبل مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب تحریک انصاف کو اکثر یہ طعنہ بھی سننے کو ملا کے "یہ صرف سوشل میڈیا اور ٹویٹر کی پارٹی ہے جس کا ملکی سیاست میں کوئی سنجیدہ کردار اور اثر نہیں" تاہم بعد کے حالات و واقعات نے اس کو غلط ثابت کیا اور تحریک انصاف قومی دھارے کی اہم جماعتوں میں شمار ہونے لگی۔

بعد ازاں دیگر جماعتیں بھی مجبور ہوئیں کہ وہ اپنا سوشل میڈیا ونگ فعال کریں اور اس پر اپنے رسوخ کو بڑھائیں۔ مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز نے گذشہ کچھ عرصے میں ملک کے اکژ قابل زکر شہروں اور علاقوں میں بھرپور سوشل میڈیا کنونشز کا انعقاد کیا جس میں کارکنان کی بڑی تعداد شریک رہی۔ اس کے نتیجے میں ن لیگ کی سوشل میڈیا فالونگ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مسلم لیگ کے کئی قابل زکر رہنما اپنا سوشل میڈیا اکائونٹ خود سے ہینڈل کرتے ہیں جن میں احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، مریم نواز، طلال چوہدری شامل ہیں۔ ان رہنماوں کی کئی ٹویٹس بریکنگ نیوز کی زینت بھی بن چکی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری متعدد مرتبہ اپنے آ فیشل بیانات ٹویٹر کے ذریعے جاری کر چکے ہیں جو شہ سرخیوں کی زینت بھی بنے رہے۔

آفیشل پیجز کے لائکس اور اکاونٹس کی ریچ کی بات کی جائے تو تحریک انصاف سر فہرست نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کے فیس بک پیج کے لائکس 57لاکھ ہے جبکہ ٹویٹر اکاونٹ کے فالورز 35لاکھ ہیں۔مسلم لیگ ن ٹوئٹر پر 9 لاکھ 44 ہزار فالوورز رکھتی ہے جبکہ فیس بک پر 26لاکھ فینز پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی بھی سوشل میڈیا پر منظم وجود رکھتی ہے۔ جماعت کے فیس بک اکاونٹ کے لائک چار ملین ہیں ۔ ایم کیو ایم بھی مضبوط انداز میں سوشل میڈیا پر موجود تھی لیکن ان کا سوشل میڈیا لندن سے کام کرتا تھا جس پر ابھی بھی بانی متحدہ کی تصاویر اور خبریں لگتی ہیں اس وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان اپنے بڑے اکائونٹس سے محروم ہو گئی۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دیہی علاقوں سے انتخاب میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کے بھی آفیشل اکاونٹ موجود ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان پر حلقے میں ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہی دی جاتی ہیں۔ بہت سے امیدواران نے اس مقصد کے لیے الگ ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور اس پر بھاری رقم بھی صرف کر رہے ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے سوشل میدیا پیجز اور اکاونٹس پر موجود لاکھوں فالورز ووٹ بنک میں کس حد تک تبدیل ہو سکتے ہیں اور کیا دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا سے انتخابی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔