لاہور: (روزنامہ دنیا) یورپ، افریقہ اور ایشیا میں دوسری عالم گیر جنگ کے دوران جو ہولناک واقعات پیش آئے وہ اپنے الم انگیز نتائج کی وجہ سے انسانی تباہی کے صفحات تاریخ پر ہمیشہ ثبت رہیں گے۔ ایسے ہی درد انگیز واقعات روس اور جرمنی کی جنگ میں بھی پیش آئے۔ اسے ملک گیری کی ہوس کہیے یا سیاسی حکمت عملی یا شامت اعمال کہ جرمنی نے روس پر بھی حملہ کر دیا تھا۔ اس طرح اس نے ایک خونیں ڈرامہ شروع کر دیا تھا۔
روس پر جرمنی کا حملہ یورپ کی جنگ ہی کا ایک باب ہے، اسے علیحدہ چیز نہیں سمجھنا چاہیے شروع میں برطانیہ اور فرانس کو اکیلے جرمنی سے لڑنا پڑا تھا اور اس کی خطرناک طاقت کے مقابلہ میں ہر جگہ شکست کھانی پڑی تھی، یہاں تک کہ امریکا بھی میدان جنگ میں کود پڑا۔ اس طرح ایک اتحادی محاذ قائم ہو گیا تھا۔ بالکل اسی طرح روس کو بھی جرمنی کے جدید سامان حرب اور نئی فوجی چالوں کے آگے شروع میں پے در پے پسپائی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر سٹالن نے گھبرا کر چرچل اور روزویلٹ سے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ جلد ہی ایک نیا محاذ کھول دیں تاکہ جرمن اسلحے کا بے پناہ دباؤ روس پر سے کچھ کم ہو جائے۔
المیہ یہ تھا کہ برطانیہ کی طرح روس کے پاس بھی پورے ہتھیار نہ تھے۔ مگر روس کے پاس ایک قوی اثر قدرتی ہتھیار بھی تھا۔ جس کے آگے ڈیڑھ صدی قبل فاتح عالم نپولین بھی نہ ٹھہر سکا تھا۔ وہ ہتھیار روس کا موسم سرما تھا۔ اس کے علاوہ مدافعت کرنے والے روسیوں کی ہمت بھی بڑے کام کی تھی۔ جرمنی کو روس کے محاذ پر عجیب و غریب نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ سردی کے زمانے میں اس کی فوجوں کو روسی محاذ پر سے پسپا ہونا پڑتا اور گرمی کے موسم میں وہ پھر زور لگا کر آگے بڑھ جاتیں۔ یہاں تک کہ سٹالن گراڈ تک جا پہنچیں، جہاں انہوں نے تباہی مچا دی، لیکن سٹالن گراڈ والوں نے ان کے دانت کھٹے کر دیے۔
اسی طرح ماسکو کی مدافعت میں بھی روسی ایسی جان توڑ کر لڑے کہ نازیوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ آخر وہ وقت بھی آ گیا کہ نازیوں کو روس میں ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 1945ء تک انہیں ماسکو فتح کرنے کے بجائے اپنے عظیم دارالسلطنت برلن کو بچانے کے بھی لالے پڑ گئے۔
اب نازیوں پر برا وقت آ گیا تھا۔ ہٹلر اپنے بلند بانگ دعوؤں اور پچھلی فتوحات کا جنازہ نکلتا دیکھ کر اس قدر چڑچڑا ہو گیا تھا کہ اپنے بڑے سے بڑے مشیر کی بے عزتی کر کے رکھ دیتا۔ اسی بنا پر اس کے امرا اور رفقا میں ایک بد دلی پیدا ہو گئی اور وہ اندر ہی اندر اس کے بدخواہ ہو گئے۔ اسی بد دلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز وہ ان کی سازش سے ہلاک ہونے سے بال بال بچا۔
ہوا یوں کہ ہٹلر مع اپنے مشیروں کے کمرۂ مشاورت میں بیٹھا تھا جس میں ایک بیش بہا گول اور بہت بڑی آبنوسی میز رکھی تھی۔ ہٹلر اور اس کے مشیر جنگ کی بدلی ہوئی صورت حال پر صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ہٹلر کا ایک مشیر خاص کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ایک معزز آدمی بھی تھا جس سے حاضرین میں سے کوئی واقف نہ تھا۔ اس آدمی کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک قیمتی اور خوبصورت بیگ تھا جیسا کہ حکومت کے بڑے لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا۔
ہٹلر کے مشیر خاص نے اس آدمی کا ہٹلر سے تعارف کرایا جس کے بعد ہٹلر نے اس سے بیٹھنے کو کہا۔ کسی بڑے آدمی کی میز پر اپنی چیزیں رکھنا آداب و تہذیب کے خلاف ہے، اس لیے اس آدمی نے اپنا چرمی بیگ آبنوسی میز کے نیچے کے ایک پائے سے ٹکا کر رکھ دیا۔ پھر باتیں ہونے لگیں۔ ہٹلر چونکہ ایک اہم کانفرنس کر رہا تھا۔ اس آدمی نے زیادہ مخل ہونا مناسب نہ سمجھا اور اجازت کا طالب ہو کر کمرے سے چلا گیا۔ حاضرین صلاح مشورے میں محو تھے۔ اس لیے کوئی یہ نہ دیکھ سکا کہ وہ آدمی اپنا چرمی بیگ یہیں بھول کر یا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
ابھی اس کو کمرے سے گئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میز کے نیچے ایک زبردست دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اس قدر طاقت ور تھا کہ اتنی بڑی آبنوسی میز فرش سے اڑ کر چھت سے جا لگی۔ اس سے چھت میں ایک بڑا سوراخ پیدا ہو گیا۔ میز کے پرخچے اڑ گئے اور چرمی بیگ کے قریب بیٹھے ہوئے لوگ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ خود ہٹلر کے اوپر چھت کا ملبہ آ گرا۔ میز کے بعض ٹکڑے اس کے جسم سے ٹکرائے جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا۔ بہرحال ہٹلر مرنے سے بال بال بچ گیا۔
اس کے بعد اس نے کئی آدمیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جس میں سے بیشتر بے قصور تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ہٹلر کے چند بااثر رفقا اسے ختم کر کے جرمنی میں ایک نئی حکومت بنانا چاہتے تھے جس کا اولین کام یہ ہو کہ ایک طرف تو امریکا سے صلح کر لی جاتی اور دوسری جانب برطانیہ سے تاکہ ان محاذوں پر الجھی ہوئی جرمن فوجوں کو وہاں سے ہٹا کر روس کی برلن کی جانب ہونے والی پیش قدمی کو نہ صرف روکا جاتا بلکہ روسیوں کو جرمنی سے بالکل نکال دیا جاتا۔
لہٰذا اس کے متعلق امریکہ و برطانیہ سے الگ الگ سلسلۂ جنبانی شروع ہو گیا تھا اور متذکرہ بالا بم کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔ مگر ہٹلر بم کے حادثے میں بچ گیا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ اس کے مخالفین پیدا ہو چکے ہیں۔ نازیوں کی طاقت میں جھول پڑتے ہی امریکہ، برطانیہ اور روس کی منزل مقصود برلن ہو گیا تھا۔
روس نے شمالی محاذ پر اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دی تھیں۔ آخر وہ ایک روز ایک دریا تک جنگ کرتی ہوئی جا پہنچیں، روسی مارشل زکوف فوجوں کے معائنہ کو آیا اور اس نے حملہ کا حکم دے دیا۔اس دریا کا کنارا جرمنی کی پہلی دفاعی لائن تھی۔ یہاں روسیوں اور جرمنوں کے درمیان سخت جنگ ہوئی جس میں ٹینک اور ہوائی جہاز بھی آزادی سے استعمال کیے گئے۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے پر آگ برساتی رہیں۔
روسی فوج میں وہ تجربہ کار جنرل اور سپاہی بھی شامل تھے جو سٹالن گراڈ اور دریائے والگا کے اہم محاذوں پر لڑ چکے تھے۔ انہوں نے نازیوں کا ناطقہ بند کر دیا۔ صبح سے شام تک جنگ میں طرفین کے سینکڑوں آدمی مارے گئے۔ آخر نازیوں کی پہلی دفاعی لائن ٹوٹ گئی اور روسی فوجیں یلغار کر کے آگے بڑھ گئیں۔
اس لڑائی میں نازیوں کے جو جنگی قیدی پکڑے گئے ان سے معلوم ہوا کہ انہیں روس کے اس حملہ کی توقع نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ ان کا خیال تھا کہ روسی فوج اس طرح معمولی سا دباؤ ڈالے گی، مگر وہاں معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ یہ بات بھی نازیوں میں پھیلی ہوئی بددلی پر دلالت کرتی ہے۔ بہرحال نازیوں نے تازہ دم فوج جمع کی اور روسیوں پر جوابی حملہ کیا۔ یہ اس قدر شدید لڑائی تھی کہ تمام رات جاری رہی۔ آدمیوں اور ٹینکوں کاصفایا ہو گیا۔ مگر آخرکارروسی آ گے بڑھتے چلے گئے۔
تحریر: قیسی رامپوری