پاکستان میں بلوچستان کی شمولیت کا تاریخی فیصلہ

Last Updated On 29 June,2018 09:48 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) برصغیر کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کا مطالبہ 1946ء کے آخر تک ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا تھا کہ اب اسے نہ تو انگریز مسترد کرسکتا تھا اور نہ کانگریس کا واویلا اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ تاہم بعض علاقوں کے پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کے حتمی فیصلے کے اعلان سے پیشتر استصوابِ رائے(ریفرنڈم) کا اصول طے کیا گیا۔

ان علاقوں میں مشرقی بنگال میں سلہٹ کا علاقہ اور اس جانب صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔ انگریز اور کانگریس کی ملی بھگت اب بھی اپنی جگہ کام کررہی تھی اور برطانوی حکمران اب بھی بلوچستان کو برصغیر سے علیحدہ ایک ایسی خود مختار ریاست کی صورت دینے پر تلے ہوئے تھے جو برصغیر میں ان کے اقتدار کی آخری آماجگاہ بن سکے۔ اس لیے سلہٹ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تو انہوں نے استصوابِ رائے عامہ کرانے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ شاہی جرگے کے سپرد کر دیا۔

بلوچستان میں ریفرنڈم کی تاریخ 29جون 1947مقرر ہوئی تھی لیکن اس سے قبل ہی بعض ایسی مشکلات پیدا ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حق میں فیصلہ ہونا آسان نظر نہیں آتا تھا۔ مسلم لیگی زعماء، قبائلی سردار اور سرفروش حالات کا رخ موڑنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ دوسری جانب کانگرس بھی سازشوں میں مصروف تھی جبکہ انگریز بھی مسلمانوں کی یکجہتی کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔

قائداعظمؒ نے 25جون کو مندرجہ ذیل بیان جاری کیا۔ ’’اب یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں 29جون کو استصواب رائے ہو گا۔ میں ہر مسلمان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھارت کی دستور ساز اسمبلی کی بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیں‘ مجھے امید ہے کہ رائے دہندگان‘ جو شاہی جرگہ کے ارکان (ماسوائے نمائندگان ریاست قلات) اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیرسرکاری نمائندوں پر مشتمل ہیں‘ اپنا فیصلہ دیتے وقت اس چیز کا احساس کریں گے کہ بلوچستان مملکت پاکستان میں ہی باعزت طور پر زندہ رہ سکتا ہے۔ میں بلوچستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں تمام طبقوں اور مفادات سے انصاف ہوگا اور مجھے امید ہے کہ ہمارے دشمنوں نے جو گمراہ کن پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور جس کے مطابق وہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف اور ایک مفاد کو دوسرے مفاد کے خلاف صف آرا کررہے ہیں‘ وہ بلوچستان میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گا۔‘‘

قائداعظمؒ کے اس بیان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ نتیجتاً 28جون کی رات کے دس بجے تک 5 سرداروں کے علاوہ تمام سردار پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کا وعدہ کرچکے تھے۔ لیکن اسی رات اے جی جی نے بتایا کہ 29جون کو ریفرنڈم نہیں ہو گا‘ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا 3جون والا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا اور اس کے 24 گھنٹے بعد 30 جون کو سرداروں کی رائے لی جائے گی۔ یہ بڑی گہری چال تھی اس کے خلاف تحریک پاکستان کے دیوانے ڈٹ گئے۔ انہوں نے نواب محمد خان جوگیزئی کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جیسے ہی اے جی جی مسٹر جیفرے پرائر اپنا بیان ختم کرنے لگیں‘ یہ کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم سب سردار فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم پاکستان کے حق میں ہیں۔

29جون کو ٹائون ہال کوئٹہ میں دس بجے سب سردار یکجا ہوئے۔ پریس والوں کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی۔ ٹائون ہال کے باہر ہجوم ہی ہجوم تھا۔ ایک جانب بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کا کیمپ لگا ہوا تھا۔ ٹھیک دس بجے مسٹر جیفرے پرائر ہال میں داخل ہوئے۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان پڑھنا شروع کیا۔ وہ ابھی یہ اعلان ختم نہ کر پائے تھے کہ نواب محمد خان جوگیزئی بڑے اعتماد سے اٹھے اور مسٹر جیفرے پرائر سے مخاطب ہوئے: ’’ہم یہ بیان پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت نہیں چاہیے کیونکہ شاہی جرگے کے سردار پاکستان کی حمایت میں فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے گا۔ وہ حضرات جو اس فیصلے کے خلاف ہیں‘ ایک طرف ہوجائیں۔‘‘

سردار دودا خاں مری نے بھی پاکستان کے حق میں تقریر کی اور پھر چند ہی منٹ میں تائید کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ صرف چار سردار درمیان میں کھڑے رہے۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا یہ بلوچستان اور قلات کا مسئلہ ہے؟‘‘ ۔مسٹر جیفرے اردو میں بولے ’’یہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ قلات کا اس میں کوئی دخل نہیں۔‘‘ اس پر ان چاروں سرداروں نے بیک زبان کہا: ’’ہم خان آف قلات سے عہد کرچکے ہیں کہ ان کا ساتھ دیں گے‘ مگر یہ تو پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ ہے ہم اپنا ووٹ پاکستان کو دیتے ہیں۔‘‘ مسٹر جیفرے پرائر کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے اردو میں کہا: ’’اچھا ہم وائسرائے کو تار بھیج دیں گے کہ شاہی جرگے کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے۔‘‘

تحریر: شاہد رشید

 




Recommended Articles