لاہور: (روزنامہ دنیا) کیا عمران خان ناکام ہو چکے ہیں ؟ کیا انتخابی وعدوں اور ایجنڈے پر حقیقت میں عملدر آمد ناممکن ہے ؟ کیا وزیر ا عظم اور ان کی کابینہ ناتجربہ کاری کا شکار ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے جب حکومت کے معتبر ذرائع سے بات ہوئی تو انہوں نے انتہائی دلچسپ انکشافات کیے۔
ایک وفاقی وزیر کے مطابق شروع کے دنوں میں بیورو کریسی تحریک انصاف حکومت کیساتھ اصل حقائق شیئر کرنے سے بھی کتراتی تھی۔ ہر وزارت اور شعبے میں حالات اتنے گھمبیر تھے کہ افسران اصل صورتحال چھپاتے رہے۔ وقت کیساتھ حالات سامنے آنا شروع ہوئے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہو گئے، معاشی معاملات میں تاخیر سے فیصلوں کی اصل وجہ یہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کچھ سرکردہ رہنما بھی حکومت کے بروقت فیصلوں میں رکاوٹ بنے رہے۔ یہ رہنما وزیر اعظم کو ڈراتے رہے کہ ا قلیتی حکومت ہونے کے ناطے اپوزیشن سے بنا کر رکھنا ہوگی، چیئرمین پی اے سی کی تقرری پر بھی دو روایتی سیاستدان عمران خان کو اپوزیشن کیساتھ چلنے کا مشورہ دیتے رہے۔
حکومت کے سست روی کیساتھ آگے بڑھنے کی تیسری اہم وجہ دوست ممالک سے جڑی غیر حقیقی امیدیں ہیں، کچھ رہنماؤں کا خیال تھا کہ شاید چین اور سعودی عرب مدد کر دیں تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے لیکن ایسا نہ ہو سکا، حکومت میں عہدوں اور وزارتوں کی تقسیم کے حوالوں سے بھی عمران خان کی توجہ منقسم ہے، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے بھی انہیں تنقید کا سامنا ہے، پارٹی کے کچھ سینئر رہنما خبریں اڑا رہے ہیں کہ عثمان بزدار کی چھٹی ہونے والی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر عمران خان کو عثمان بزدار کے دفاع میں خود سامنے آنا پڑتا ہے، لاہور کی پریس کانفرنس بھی اسی پس منظر میں کی گئی۔
عمران خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں وقت لیتے ہیں، لیکن جب فیصلہ کرتے ہیں تو ڈٹ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر کسی موقع پر اپنے اتحادیوں یا اپوزیشن نے حکومت کیلئے کام کرنا دشوار بنایا تو وہ ملک میں مڈ ٹرم انتخابات کی طرف جانے سے گھبرائیں گے نہیں، جہاں تک مشکل فیصلوں کا تعلق ہے تو وہ آنے والے دنوں میں تواتر کیساتھ ہوں گے، باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ تجاوزات کے خلاف مہم ہو، لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا معاملہ، اداروں میں اصلاحات یا بے لاگ احتساب، عمران خان اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ٹیم سلیکشن کا بھی از سر نو جائزہ لیا جائے گا ،عمران خان بڑے فیصلے کر سکتے ہیں اور کئی وزرا ا ور افسران تبدیلی کی زد میں آئیں گے، جب تک عمران خان وزیر اعظم ہیں پاکستان تبدیلی کی زد میں رہے گا۔
تحریر: خاور گھمن