لاہور: (روزنامہ دنیا) تبدیلی ، میرٹ، شفافیت کے نعرے سب دھرے رہ گئے، پولیس کے معاملات میں 8 اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی مداخلت کرنے پر تبدیلی کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ گورنر پنجاب چودھری سرور کوشش کر رہے تھے کہ امجد جاوید سلیمی آئی جی پنجاب آئیں، اسی طرح کچھ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما عارف نواز کو آئی جی کی ذمہ داری نبھانے کا ٹاسک دینا چاہتے تھے، چونکہ وزیراعظم عمران خان نے ناصر خان درانی کو پولیس اصلاحات اور صوبے میں امن و امان کو بہتر بنانے کا ٹاسک دیا تھا لہذا انھوں نے محمد طاہر جو کہ پہلے آئی جی خیبرپختونخوا موجود تھے کو پنجاب میں تعینات کرنے کی سفارش کی، وزیراعلیٰ پنجاب بھی آمادہ ہوگئے، نام کی منظوری دیدی گئی، تین ہفتوں تک نوٹیفکیشن کا انتظار کیا، اس کے ساتھ ہی معاملہ پاکپتن والا بے نقاب ہوا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پولیس پر دبائو ڈالا اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ایک نیا محاذ کھول دیا، ابھی یہ معاملہ طے نہیں ہو ا تھا کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے 28 ستمبر کو ایک طرف پی ٹی آئی عوامی نمائندوں اور دوسری جانب پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو بٹھایا شکایات پر پولیس اور دیگر انتظامیہ سے جوابات لئے گئے۔
یہاں پر کئی ڈی پی اوز، آر پی اوز سمیت ڈی ایس پیز، یہاں تک کہ ایس ایچ اوز کو بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پھر چار روز تک مختلف ڈویژنز کے اجلاس عثمان بزدار کرتے رہے، جس میں عثمان بزدار نے حکم دئیے تھے کہ پولیس، ضلعی انتظامیہ پی ٹی آئی عوامی نمائندوں کو ساتھ لیکر اقدامات کرے اور ان سے تعلقات بھی بہتر بنائیں۔ پولیس ذرائع بتاتے ہیں کہ ان اجلاسوں کے بعد آئی جی پنجاب محمد طاہر نے سخت ناراضگی کا بھی اظہار کیا اور پولیس افسران کو بھی حکم دیا کہ وہ ان کے احکامات مانیں گے، جبکہ محمد طاہر کی ٹیم میں بھی کچھ ایسے پولیس افسر تھے جو معاملات کو بہتر بنانے کی بجائے ہمیشہ سے ہی خراب کرتے ہیں، جن میں سے دو بڑے افسر لاہور میں بھی اہم عہدوں پر تعینات ہیں، جن کی جانب سے معاملات کو خراب کرنے کیلئے آئی جی کو غلط ٹریک پر چلنے کے مشورے دئیے جاتے رہے۔
اسی طرح وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے کچھ ڈی پی اوز اور 2 ڈی ایس پیز، جن میں انور سعید اور افضل محمود کے نام سامنے آرہے ہیں، کے تبادلے کے لئے کہا گیا تھا، جو فوری کر دئیے گئے جس کے بعد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سابق مشیر نے فوری طور پر تبادلے منسوخ کرنے کا حکم دیا اور پھر وہ منسوخ بھی کر دئیے گئے، اس کے بعد وزیراعظم عمران خان سے آئی جی پنجاب کی ملاقات لاہور میں ہوتی ہے اور پھر آئی جی پنجاب محمد طاہر کا رویہ بھی پولیس افسروں سے تبدیل ہو گیا، محمد طاہر کسی بھی پولیس افسر یا حکومتی نمائندے سے ملنے کو تیار نہیں ہوتے تھے، اگر کوئی آجائے تو سخت لہجے میں بات کر کے افسروں کو اپنے سے بھی دور کرنے لگے اور پھر پولیس افسروں کی جانب سے بھی ان سے متعلق تحفظات پر مبنی شکایات اعلیٰ حکام کو پہنچائی گئیں، اسی دورانیہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر ملوث افسروں کو تبدیل نہ کرنے پر وزیراعظم نے سخت برہمی کا اظہار کیا تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی کھل گئے اور کہہ دیا کہ ان کے احکامات پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا ہے، گورنر پنجاب چودھری سرور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر میدان میں آگئے اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی منانے میں کامیاب ہو گئے اور عمران خان نے امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔
9 اکتوبر کو تبادلے کا حکم جاری ہوا تو محمد طاہر نے فوری طور پر ناصر خان درانی کو آگاہ کیا، جس پر ناصر خان درانی کو بھی یہ سب معاملات نا مناسب لگے اور انہوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، البتہ ان کی جانب سے ان تمام تر معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ جبکہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب کے درمیان معاملات اس حد تک شدت اختیار کر گئے کہ آئی جی پنجاب خود دعوت دیکر خواتین کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شریک نہ ہوئے اور عین اسی وقت آئی جی پنجاب نے اپنا اجلاس طلب کر لیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
تحریر: محمد حسن رضا