غازی علم دین شہید کی کہانی

Last Updated On 03 November,2018 10:56 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) جب بھی کسی مشرک نے سرورِ کونین حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کی وہ اپنے درد ناک انجام کو پہنچا۔ہندو ناشر مہاشہ راجپال نے آپؐ کے بارے میں گستاخانہ کتاب چھاپی۔ یہ منظر عام پر آئی تو مسلمانوں کے دل لرز گئے۔ اس کے خلاف اس صدی میں بڑے بڑے جلسے ہوئے اور اس کو واصلِ جہنم کرنے کا شرف علم الدین کو حاصل ہوا۔

غازی علم الدین شہید کی ساتویں پشت ’’لہنا سنگھ‘‘ سے ملتی ہے، جو مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے زمانے میں مسلمان ہوئے، اور حضرت برخوردار کے نام سے زاہد و پرہیزگار مشہور ہوئے۔ آپ کی چھٹی پشت سے طالع مند اور پھر اسی طالع مند کے گھر 4دسمبر1908ء کو علم الدین پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی۔آپ کو پڑھائی سے کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا۔لہٰذا آپ کے والد محترم مستری طالع مند نے آپ کو بھی بڑھئی(لکڑی) کا کام سکھا دیا۔ آپ نے اپنے بھائی سے بھی سیکھا مگر مستری نظام الدین نے آپ کو اعلیٰ پائے کا کاریگر بنا دیا، اِس طرح آپ لاہور اور ملتان میں بھی کام کے لیے گئے اور پھر یکم جنوری1928 ء کو والد محترم کے ہمراہ کوہاٹ گئے، وہاں ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ اسی دوران مارچ1929ء میں بڑے بھائی محمد دین کے گھر بچی پیدا ہوئی ، اسے دیکھنے لاہور آئے اور 28مارچ1929ء کو آپ کی منگنی ماموں زاد سے ہوئی۔ انہی دنوں لاہور کے ہر گلی کوچے میں ہندو ناشر راجپال کا نام واجب القتل کے لیے گونج رہا تھا۔ہر دل غمگین اورہر آنکھ اشکبار۔متعدد جوان اس کو واصلِ جہنم کرنے کے متلاشی تھے۔ حکومت برطانیہ نے اس کو اس عمل پر 6ماہ قید کی سزا سنائی مگرہندو انتہاپسندوں نے نہ صرف اس کو رہا کروایا بلکہ اس کے لیے پولیس تعینات کی گئی۔ علم الدین کے اندر بھی چنگاری جل چکی تھی مگرآپ سے پہلے دو مسلمان مجاہد غازی عبدالعزیز خان اور لاہور سے غازی خدا بخش نے راجپال پر حملہ کیا مگر وہ زخمی اور غازی عبدالعزیز کو14سال جبکہ غازی خدا بخش کو 7 سال قید سنائی گئی۔ آپ نے فجر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد حضرت داتا گنج بخش المعروف داتا علی ہجویریؒ کی درگاہ پر حاضری دی۔ کباڑیے سے لیا ہوا چھرا لے کر نکلے۔اور میوہسپتال کے نزدیک اس کی دکان پر پہنچے اور چھرا اس کے سینے میں پیوست کر دیا۔ ’’راجپال قتل ہو گیا‘‘، ہر طرف اب یہی گونج رہا تھا۔

اچانک غازی صاحب کے دل میں خیال آیا کہیں راجپال بچ نہ گیا ہو،لہٰذا اسی وقت اس کی دکان پر گئے۔ پولیس نے راجپال کے ملازموں کی نشاندہی پر آپ کو گرفتار کر لیا۔ اور نعروں کی گونج میں آپ نے واشگاف الفاظ میں مسکراتے ہوئے کہا:۔’’خدا کا شکر ہے میری محنت ٹھکانے لگی ‘‘۔ شہر میں دفعہ144 نافذ کر دی گئی، رات کو راجپال کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ صبح ہندوؤں کے جمِ غفیر میں نعش ورثا کے حوالے کی گئی اور نعش کو باغ بیرون ٹکسالی دروازہ سپرد آتش کیا گیا اور راکھ راوی کی تندو تیز موجوں کے حوالے کی گئی۔ مہاشہ راجپال کے قتل کا مقدمہ سنٹرل جیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ای۔ایس۔لوئیس کے سامنے پیش کیا گیا۔

غازی صاحب شفاف لباس اور ہتھکڑیوں سے لیس بینچ پر بیٹھے تھے۔آپ نے قتل قبول کیا۔غازی موصوف کی طرف سے فرخ حسین بیرسٹر نے مقدمے کی پیروی کی ،مگر آپ کو سزائے موت سنائی گئی۔اپیل کی گئی۔ اہلِ لاہور نے علامہ اقبالؒ کی سر کردگی میں مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے محمد علی جناحؒ کی خدمات حاصل کیں، آپ ممبئی سے لاہور آئے۔ مقدمے کی پیروی میں غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کیا جسے آپ نے نہ بدلا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کیس کا رخ بدل دیا مگر آپ کی سزا برقرار رہی ،کیس کے لیے علم الدین ڈیفنس کمیٹی قائم کی گئی ، چندہ جمع کیا گیا، پریوی کونسل تک اٹھارہ ہزارروپے کے اخراجات ہوئے مگر انتہاپسند ہندو تنظیموں نے انگریز حکومت کو بھی فیصلہ نہ بدلنے دیا اور آپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔غازی موصوف لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ کے قیامِ جیل میں پورا قرآن پاک آپ کو حفظ ہو گیا۔ پریوی کونسل لندن نے پہلے آپ کو لاہور میں پھانسی دینی تھی مگر وہ مسلمانوں کے غیظ و غضب سے ڈرتے تھے لہٰذا آپ کو سنٹرل جیل لاہور سے بذریعہ موٹر گوجرانوالہ اور وہاں سے میانوالی روانہ کیا گیا۔ یہاں 4 اکتوبر کو صبح سویرے فرسٹ کلاس ڈبے سے غازی صاحب اترے اور پولیس حراست میں میانوالی جیل لائے گئے۔ہر روز سینکڑوں افراد دیدار کے لیے جیل آتے ۔ 30 اکتوبر کو آخری ملاقات کے لیے غازی علم شہید کے ورثا کو میانوالی جیل میں بلایا گیا۔اس دن آپ روزے سے تھے۔

30 اور31 اکتوبر کی درمیانی شب گویاآخری رات تھی مگر یہ تو آپ کو ہی معلوم تھا کہ وہ یہاں فانی سے لافانی دنیا میں پہنچ جائیں گے۔ 31 اکتوبر1929ء کی صبح صادق پروانہ شمع رسالتؐ خالق حقیقی سے جا ملا۔ دس بجے شہید کی نعش کو چارپائی پر ڈال کر جیل سے باہر لایا گیا۔دروازے پر ہزاروں آنکھیں شہید کا دیدار کرنے کے لیے بیتاب تھیں،پولیس نے لوگوں کو جنازہ نہ پڑھنے دیا ان پر پتھراؤ کیا بلکہ غازی و شہید کو انگریز حکومت کے حکم پر لاوارثوں کے قبرستان میں بے گورو کفن اور جنازے کے بغیر گڑھے میں ڈال دیا۔ اہلِ لاہور نے جب یہ سنا تو ہر طرف احتجاج ہوا۔ علما اکٹھے ہوئے، علامہ اقبالؒ، سر محمد شفیع ، دیدار علی شاہ اور مولانا ظفر علی خاں کی قیادت میں مسلمان آپ کا جسدِ خاکی انگریز حکومت سے لینے میں کامیاب ہو گئے اور لاہور کو پر امن رکھنے کی تمام تر ذمہ داری علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے سر لی۔ آپ کو لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں قبر میں اتاراگیا۔ آپ کا مزار چوبرجی لاہور سے چند منٹ کی مسافت پر ہے۔