لاہور: (تجزیہ: امتیاز گل ) ایک طرف حالات نے افغان مصالحتی عمل میں کلیدی کردار کے باعث پاکستان کو ایک بار پھر بین الاقوامی سیاست میں غیر معمولی اہمیت دلا دی ہے اور اعلیٰ ترین سطح پر طویل عر صے بعد ملکی مسائل کے حل کیلئے مکمل اتفاق رائے کی شنید ہے۔ اہم ترین حلقوں میں یہ تصور پختگی کے ساتھ قائم ہے کہ بے رحم احتساب اور حکومت کاری سے متعلق بنیادی اصلاحات کے بغیر ملک کو سکیورٹی ریاست سے عوامی فلاح و بہبود اور ترقی پر مبنی نظام کی راہ پر ڈالنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔
مختلف ذریعوں سے اس رائے کا اظہار سامنے آرہا ہے کہ کینسر زدہ جسم کا علاج سرجری اور کیموتھراپی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ عمل درد ناک ضرور ہے مگر اس کا طویل المیعاد فائدہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کو ہوگا۔ اصلاحات اور احتساب کے معاملے پر سمجھوتا قطعی طور پر خارج از امکان اور معاملات کی درستگی کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی قطعیت کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ پارلیمان کے اندر یا باہر اس تمام عمل کو روکنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی ایسی کوشش کامیاب ہونی چاہیے۔ ملک میں قانون کی عملداری اچھی حکومت کاری اور ترقیاتی ایجنڈے کی راہ میں کوئی رکاوٹ قبول نہیں کی جائیگی۔ کوئی اتحا د بنے یا نہ بنے اس ملک کی ترقی اور عوام کی خو شحالی کا مقصد فراموش نہیں کیا جا ئیگا۔
بیک گراؤنڈ انٹرویوز کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری نہیں کہ ملک کے مقتدر حلقوں کو اس امر کا شدت سے احساس ہے کہ ملک کی پسماندگی کو محض یکسو گورننس اور مسلسل احتساب کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر ہمسایہ ملک چین کے مشورے کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سیاسی و غیرسیاسی قیادت نے جو بات طے کرلی ہے وہ یہ کہ اقوام عالم میں کھویا وقار بحال کرنے اور اندرونی طورپر استحکام کا واحد راستہ اقتصادی ترقی ہے، یعنی وہ پالیسی جو چین نے تمام تر بیرونی تنقید کے باوجود اختیار کئے رکھی اور جس کے باعث یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی قوت بن کر ابھرا ہے۔ پہلی مرتبہ تمام قومی ادارے ہم خیال اور اہم ملکی امور پر یک زبان ہیں ۔ اس تمام سیاق و سباق میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی قیادت اس ہمت اور حو صلے کا مظاہرہ کر سکے گی کہ مشکل سوالات کے جواب کیلئے غیر معمولی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہ کیا جائے تاکہ دوسرے ملکوں پر انحصار کم سے کم اور اندرونی قوت میں اضافہ ہو۔
بلاشبہ بڑے ایوانوں میں احتسابی ادارے کی ان گنت کارروائیوں اور ماضی کا حصہ بننے والی ایک شخصیت کے کئی اقدامات کے حوالے سے شدید تحفظات بھی سنائی دے رہے ہیں۔ چھوٹے درجے کے سرکاری اہلکاروں کیخلاف پے در پے کیس تشویش کا باعث بن رہے ہیں عام تاثر یہی ہے کہ جب تک بڑے مگرمچھوں کے کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچتے اس وقت تک خود کو مزید کیسوں میں پھنسانے سے اصل منزل گم ہونے کا خدشہ ہے۔ جب تک ملک کے تعزیری اور دیوانی قانون میں ترمیم اور پولیس اصلاحات نہیں ہوتیں اس وقت تک اداروں کیلئے بھی خاطر خواہ نتائج فراہم کرنا مشکل ہوگا، تاہم ان تمام رکاوٹوں کے باوجود احتساب، بہتر طرز حکمرانی اور متفقہ خارجہ پالیسی ایسے اہداف اس وقت مقدم حیثیت اختیار کر چکے ہیں، پیغام یہی ہے کہ اگر ہم نے ایک نارمل ریاست کے طور پر اپنی پہچان کرانی ہے تو پھر اقتصادی ترقی کیلئے شعبہ ہائے حکومت میں بنیادی اصلاحات ناگزیر ہوں گی اور اس اصلاحاتی عمل پر قطعا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔