لاہور: (امتیاز گل) آئرن برادر چین سے سوال کرنے پر میں خوش ہوں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا یہ بے ساختہ اظہار 7 مارچ کی پریس کانفرنس میں اے پی پی کے پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں تھا، جو دونوں ملکوں کے سٹریٹجک روابط کی موجودہ نوعیت کا لفظی خاکہ ہے۔ یہ لفظ ان کیلئے حیران کن نہیں جو جانتے ہیں کہ چینی زبان کا لفظ ‘‘Patiye’’ جس کے معنی آئرن برادر ہیں، اسے عموما پاکستان کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگلے روز 8 مارچ کو بیجنگ میں ترجمان وزارت خارجہ نے 26 فروری کے پاکستانی حدود میں فضائی حملوں پر واضح بیان جاری کیا؛ تمام ملکوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔ چین ایسے کسی بھی رویے کے خلاف ہے جوکہ عالمی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہو۔ پاکستان اور بھارت باہمی اعتماد، اتفاق رائے پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے ملاقاتوں کیلئے اقدامات کریں تاکہ کشیدگی کم ہو سکے۔
تین روز بعد ترجمان نے سکیورٹی کونسل کے 13 مارچ کے اجلاس میں رہنما جیش محمد مولانا مسعود اظہر کے بارے میں ممکنہ فیصلے پر بھارتی میڈیا کی مشکوک رپورٹس مسترد کر دیں، اور کہا کہ غیر موزوں ذرائع سے جمع کی گئی معلومات کو کسی فیصلے کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔ صرف ذمہ دارانہ اور سنجیدہ بحث و مباحثے کے ذریعے فیصلہ کر کے ہم مسئلے حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سکیورٹی کونسل 1267 کمیٹی میں دہشت گرد تنظیموں اور افراد کو شامل کرنے سے متعلق چین اپنے موقف پر پہلے بھی کئی بار زور دے چکا ہے۔ اس حوالے سے ہونیوالے بحث مباحثوں میں چین ہمیشہ پوری ذمہ داری اور 1267 کمیٹی کے طریقہ کار اور قواعد کے مطابق شریک ہوا۔ چین متعلقہ فریقین کیساتھ ذمہ دارانہ طریقے سے رابطے اور کام جاری رکھے گا تاکہ یہ مسئلہ مناسب طریقے سے حل ہو۔ صرف ذمہ دارانہ اور سنجیدہ بحث کے ذریعے فیصلے کر کے ہم اس مسئلے کے پائیدار حل تک پہنچ سکتے ہیں۔
مولانا اظہر پر متوقع رائے شماری کے حوالے سے ان باتوں کا کیا مطلب ہے ؟ کیا چین اس پر اپنی ٹیکنیکل گرفت کا دوبارہ استعمال کرے گا، یعنی مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی سکیورٹی کونسل میں فرانس کی پیش کر دہ تجویز کا ساتھ دے گا، یا پھر ویٹو کر دے گا ؟ چینی قیادت کئی اشارے دے چکی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی کی سائیڈ نہیں لے گی۔ اس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ چین کو دنیا بھر میں اپنے تجارتی مفادات محفوظ رکھنے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اور ان کے ساتھیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان کیساتھ دوستی اخلاقی اصولوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا اخلاقی اصولوں کی نہیں، جٖغرافیائی سیاسی تحفظات کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ فی الوقت بھارت امریکہ اور مغرب کا بلاک سی پیک کے ذریعے بھاری معاشی سرگرمیوں اور دیرینہ دفاعی تعاون کی وجہ سے پاکستان کو بیجنگ کے پھیلاؤ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ کوئی معمول کے روابط نہیں ہیں۔ بھارت، فرانس، امریکہ، جرمنی کی سپانسر کردہ اظہر مخالف تجویز کا ساتھ دینے سے اگر کوئی چیز چین کو روکتی ہے ، تو وہ پاکستان کے ساتھ یہی غیر معمولی سٹریٹجک تعلقات ہیں۔
صرف امید کی جا سکتی ہے کہ جماعۃ الدعوۃ اور جیش محمد کے خلاف گزشتہ ایک ہفتے سے جاری بھرپور کریک ڈاؤن کو دیکھتے ہوئے بیجنگ اسلام آباد کو ایک اور موقع دے گا کہ دنیا کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنے عزم اور سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے دکھائے۔ بلاشبہ چین کے پاس وہ اختیار اور صلاحیت ہے کہ معاملات ادھر ادھر کر دے ؛ چین کے اسی اثرورسوخ نے شمالی کوریا اور صدر ٹرمپ کو تاریخی مذاکرات کا موقع فراہم کیا۔ وہ پاکستان کیلئے وہ بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے، جو اسے موزوں لگے ۔ ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین عظیم فکری ہم آہنگی اور مفادات کا ارتکاز پہلے سے موثر انداز میں دکھائی دے رہا ہے ؛ وزیر اعظم عمران خان اور فوج کی اعلیٰ قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کیساتھ اپنے اتحاد کے تحفظ کیلئے بیجنگ نے کس قدر دباؤ اپنے سر لے رکھا ہے۔ وہ صدر ژی سے متاثر اور ان کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ داخلی استحکام کیلئے ترقی ضروری ہے۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں چین کی مستقل حمایت اسی صورت ممکن ہو گی کہ اگر اقوام متحدہ کی قرارداد 1367 کے مطابق پاکستان کوئی قابل ذکر اقدامات کر کے دکھائے۔ اس پس منظر میں قرارداد 1367 پر عمل درآمد کیلئے بلائی گئی کمیٹی مولانا مسعود اظہر کے مستقبل کا فیصلے کرنے جب جمع ہو، تو چین سکیورٹی کونسل میں پاکستان کو شاید آخری موقع فراہم کرے۔