لاہور: (دنیا نیوز) احتساب عدالت نے چودھری شوگر ملز کیس میں گرفتار مریم نواز اور یوسف عباس کا 12 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ عدالت نے دونوں کو 21 اگست کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چودھری شوگر ملز کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کو احتساب عدالت کے ڈیوٹی جج نعیم ارشد کے روبرو پیش کیا گیا۔ عدالت نے نیب حکام سے استفسار کیا آپ کے پاس کیا ہے، مریم کے اکاؤنٹ سے کس کے پاس پیسے گئے، ایک سال سے انکوائریز چل رہی ہیں کیا لائے ہیں۔ نیب نے کہا نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور یوسف عباس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا، مریم نواز چوہدری شوگر مل کی ڈائریکٹر ہیں، 1992 سے 1997 تک ڈائریکٹر رہیں، 84 لاکھ روپے کے شیئر تھے جو 41 کروڑ کے ہو گئے، یہ شیئر کس سے خریدے، رقم بارے معلومات نہیں دی جا رہی۔ عدالت سے استدعا ہے کہ 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
جج احتساب عدالت نے پوچھا جب پانامہ کیس آیا ہے تو وہاں مریم کے شیرز کی بات کیوں نہیں آئی۔ جس پر نیب نے کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بات آئی تھی، پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے صرف تین خاص ریفرنس تھے، جو نواز شریف کے حوالے سے تھے۔ جج نے استفسار کیا پانامہ والے کیس میں کیا ہوا تھا جس پر نیب نے کہا اس میں تین ریفرنس داخل کرنا کا کہا جس میں چوہدری شوگر ملز شامل نہ تھا۔ نیب نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز نیب کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکیں، مریم نے جو شیئر 2008 میں خریدے وہ نواز شریف کو 2015 ٹرانسفر کر دیئے۔
عدالت نے استفسار کیا مریم نواز کے خلاف انکوئری کب شروع کی گئی۔ نیب نے کہا مریم نواز سمیت خاندان کے دیگر افراد چوہدری شوگر مل میں شیئر ہولڈرز ہیں، گرفتاری سے پہلے انہیں طلب کیا گیا تاہم وہ پیش نہ ہوئیں، شروع میں مریم نواز کے 8 لاکھ سے زائد شیئر تھے، 2008 میں مریم نواز کے نام 41 کڑور روپے کے شیئرز تھے، مریم نواز سے پوچھا تھا کہ فارن انویسٹر کون ہیں نہیں بتایا گیا، یوسف عباس چوہدری شوگر مل میں شئیر ہولڈر رہے اور ڈائیریکٹر بھی رہے ہیں، یوسف عباس کا اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوا۔ احتساب عدالت نے نیب سے استفسار کیا آپ کے پاس کیا مواد ہے جس پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ نیب نے نے کہا یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں رقم آنے کے بعد چوہدری شوگر مل منتقل کی گئی۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا ان بنیادوں پر مریم کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں، آئین کی دفعہ 10 شہریوں کو تحفظ دیتا ہے، بغیر اطلاع کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، جن بنیادوں پر گرفتار کرنا ہوتا ہے اس کے لئے مذکورہ مواد ظاہر کرنا پڑتا ہے۔