کشمیر پر واضح اور مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت

Last Updated On 19 August,2019 10:01 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باعث پیدا شدہ صورتحال اور مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے نت نئے بیانات اور اقدامات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ پہلے پہل کنٹرول لائن کو گرم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن منہ توڑ جواب کے بعد اب بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی اور اب پاکستان سے مذاکراتی عمل کے حوالے سے آزاد کشمیر پر بات چیت کا شوشہ چھوڑ دیا، لہٰذا اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر واضح اور مضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے عالمی برادری پر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے سیاسی دباؤ جاری رکھا جائے اور بھارت کو کشمیر کے مسئلہ پر دفاعی محاذ پر لایا جائے تاکہ بھارت کا ظالمانہ دور کشمیر سے ختم ہو۔

تاریخکا فیصلہ بھی یہی ہے کہ جب قومیں اپنے حقوق اور خصوصاً آزادی کی جدوجہد پر قربانیاں دینا شروع کر دیں تو پھر دوسری قوم کی مرضی کے بغیر ہمیشہ کیلئے زیردست نہیں رکھا جا سکتا، کشمیریوں کی عظیم جدوجہد نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنے کو تیار نہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی ہے جن میں ہزاروں نوجوانوں کو قتل کر کے دفن کیا گیا، عالمی میڈیا سے بھی ایسی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو بھی کشمیریوں کی نسل کشی کی جانب اہم پیش رفت ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے قتل و غارت کا بھیانک منصوبہ بنائے ہوئے ہے، جس میں اسے اسرائیل کی معاونت بھی حاصل ہے اور آج کل کرفیو کے دوران ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے اور پتا لگایا جا رہا ہے کہ حریت پسند کن کن علاقوں میں مقیم ہیں؟ کن جماعتوں کا یہاں کتنا اثر ہے ؟ مساجد اور مدرسوں پر کس کا اثر و رسوخ ہے ؟ یہاں سکیورٹی اہلکاروں کی مانیٹرنگ کا عمل بھی جاری ہے۔

سروے میں پتا چلایا جا رہا ہے کہ کس کس گھر میں پندرہ سے تیس سال کی عمر کے کتنے جوان ہیں؟ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و غارت کے بھیانک منصوبہ پر منظم انداز میں کام جاری ہے، اب ہمارا فرض یہ ہے کہ بھارت کے ان سفاکانہ عزائم سے دنیا کو با خبر کیا جائے اور انہیں قتل عام سے روکنے کیلئے دنیا کے فعال کردار کیلئے مہم چلائی جائے اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ مقبوضہ کشمیر جنوبی ایشیا کا ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے اور اس مسئلہ کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن خواب ہی رہے گا، سابقہ حکومتوں کے دور میں کشمیر کو بنیادی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس پر بات چیت کو روایتی رکھا گیا، قراردادوں اور 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے پر اکتفا کیا گیا لیکن 5 اگست کے بھارتی اقدام نے یہ ظاہر کر دیا کہ مودی سرکار پر کشمیر کا بخار سوار تھا اور نتائج کی پروا کئے بغیر اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر ڈالا، بھارت کے اس اقدام پر پاکستان کی جانب سے شدید رد عمل آیا، پاکستانی قوم نے بھی یوم آزادی کو یکجہتی کشمیر اور بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا ، اور اپنا وزن کشمیری عوام کے پلڑے میں ڈال دیا اور اب بھارتی سرکار کی جانب سے پاکستان کو دفاعی محاذ پر رکھنے کیلئے آزاد کشمیر کو نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے تا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھول کر آزاد کشمیر کو بچانے کی فکر کرے۔

بھارت کی جانب سے پاکستان کو اپنی وکٹ پر کھلانے کی حکمت عملی کا توڑ صرف اور صرف یہ ہے کہ بھارت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جائے اور کشمیر کے اندر اس کی فسطائیت اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے عمل کو عالمی برادری میں بے نقاب کیا جائے اور خود پاکستان کے اندر کشمیر کے حوالے سے قومی مفاہمت ہونی چاہیے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ اتفاق رائے نظر آنا چاہیے کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس حوالے سے کامیاب سفارتی مہم کیلئے اعلیٰ سطح کے وفود دنیا کے اہم ممالک میں بھجوائے جائیں جو عالمی برادری کو باور کرائیں کہ بھارت کو کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے باز رکھا جائے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق ملنا چاہیے، کشمیر کاز کو زیادہ موثر اور مضبوط بنانے کیلئے ان اختلافات کو ہوا نہ دی جائے جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ کا باعث بنے ہیں، ملکی مفاد میں اپنی سیاست کیلئے ایک ایک قدم پیچھے آنے سے نہ تو ان کی مقبولیت میں کمی آئے گی اور نہ ہی ان کی سیاست متاثر ہوگی۔ یہی وہ وقت ہے جس میں تحریک آزادی کشمیرکے ساتھ مکمل یکجہتی کے اظہار کی ضرورت ہے اور کشمیریوں کو بھی یہ پیغام جانا چاہیے کہ اگر پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے تو پھر اپنی اس شہ رگ کی حفاظت کیلئے اس کی جانب سے ممکنہ اقدامات جاری ہیں اور وہ کشمیریوں کو غاصب بھارت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گا۔

جہاں تک عالمی قوتوں خصوصاً امریکا کی جانب سے پاک بھارت مذاکراتی عمل پر زور کا تعلق ہے تو عالمی قوتوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان ہمیشہ باہمی تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات کے آپشن کی بات کرتا رہا اوراس کا خواہاں رہا مگر دوسری جانب بھارت اس حوالے سے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہا، اگر واقعی امریکا اور عالمی طاقتیں اس حوالے سے سنجیدہ ہیں تو وہ بھارت پر اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لائیں اور اسے پاکستان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کریں لیکن بھارت اس لئے کشمیر پر بیٹھنے سے گریزاں ہے کہ اس کا کشمیر پر کوئی سیاسی کیس نہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ کشمیر پر کسی قسم کے مذاکرات خود کو کمزور کرنے اور بے نقاب ہونے کے مترادف ہیں، بھارت کا اصل مسئلہ بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجہ میں خود بھارت کے اندر آزادی کی دیگر تحریکوں نے بھی زور پکڑنا شروع کر رکھا ہے اور بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیر پر لچک بھارتی ریاست کی رٹ کو کمزور بنا کر رکھ دے گی لہٰذا کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال نے خود بھارت کو پھنسا کر رکھ دیا ہے اور کشمیر ماضی میں بھی اس کے گلے پڑا تھا اور مستقبل میں بھی آزادی کی اس تحریک کا زور ٹوٹتا نظر نہیں آتا، لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ بھارت کو باور کرا ئے کہ مسائل کا طاقت کے ذریعہ حل ممکن نہیں، مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل ہی کارگر ہوگا اور حقیقت یہی ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی مرضی سے ہونا ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان اصل مسئلہ یہی ہے اور اسے حل کئے بغیر دونوں کا قریب آنا بھی ممکن نہیں اور اس حوالے سے بنیادی کردار امریکا ادا کر سکتا ہے۔