اہم مسائل: حکومت کے اعلانات، اپوزیشن کا بیانات پر اکتفا

Last Updated On 06 December,2019 09:29 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سیاسی منظر نامے پر نان ایشوز کا غلبہ ہے، کیا اس سے سسٹم مضبوط ہوسکے گا، اہم ترین قانون سازی پر حکومت، اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک لمحہ فکریہ ہے۔

قومی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ قوم و ملک کو در پیش چیلنجز سے نجات کو ایشو بنا کر ان سے نجات کے بجائے ان کی جگہ نان ایشوز کو اہمیت دیکر ان سے صرف نظر برتا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کو در پیش سلگتے مسائل اور مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس امر کا احساس نہیں، دنیا کے جمہوری معاشروں میں حکومت اور اپوزیشن مل جل کر مسائل کا حل ڈھونڈتی ہیں۔ ان کی سیاست کا مطمع نظر ہمیشہ عام آدمی کے حالات زندگی اور انہیں زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی ہوتی ہے۔ مگر افسوس پاکستان میں ہر اپوزیشن مسائل سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عوام الناس کو سہولتوں کی فراہمی کا دعویٰ کرتی ہے اور پارلیمنٹ میں اہم فیصلوں پر زور دیتی ہے مگر جب اپوزیشن حکومت بنتی ہے تو پھر وہ اپنے وعدے اور دعوے بھول کر حکومتی نفسیات میں رچ بس جاتی ہے، نہ اسے اپنا منشور یاد رہتا ہے اور نہ ہی اپنے انتخابی وعدے نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں جاری جمہوری عمل کے باوجود پاکستان میں جمہوریت اور سیاست مضبوط نہیں ہو پائی۔ ایسا کیوں ہے ؟ پاکستان کے اہل سیاست اپنی سیاست کو ایشوز سے کیونکر منسلک نہیں کرتے، اہم فیصلوں کیلئے پارلیمنٹ کو کیونکر بروئے کار نہیں لایا جاتا اور منتخب حکومتیں عوام کی عدالت میں کیونکر سرخرو نہیں ہوتیں۔ زمینی حقائق اور سیاسی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست نان ایشوز اور شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ اہم ترین مسائل پر حکومت صرف اعلانات اور اپوزیشن بس بیانات پر اکتفا کیے ہوئے ہے، طاقت کے مختلف فریقین ایک دوسرے کے حوالے سے بد اعتمادی رکھتے ہیں، اس کا نتیجہ قومی سیاست اور معیشت میں عدم استحکام کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اس کا ایک اور نتیجہ ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بھی بد اعتمادی کی صورت میں نکل رہا ہے، عملاً دیکھا جائے تو ملک میں جمہوریت اور جمہوریت کا تسلسل قائم ہے مگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو بے روزگاری، مہنگائی، غربت، معاشی بدحالی، عدم تحفظ، عدم انصاف ، میرٹ کا قتل، بجلی، گیس، پٹرولیم، ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، علاج معالجہ کی سہولیات سے دوری سمیت کئی ایسے معاملات ہیں جو لوگوں میں پریشانی، مایوسی کا باعث بن رہے ہیں، مگر کوئی ان کے زخموں پر مرحم رکھنے والا نظر نہیں آ رہا اور ہمارا ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام اس میں بہتری پیدا کرنے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔

افسوس یہ کہ اس کا کسی سطح پر احساس اور ادراک نہیں۔ اہل سیاست تو اس امر کو بھول رہے ہیں کہ عام آدمی کی سیاست اور معیشت کو بہتر بنائے بغیر ایک بڑا اور مضبوط جمہوری معاشرہ عمل میں نہیں آ سکتا اور نہ ہی یہاں منصفانہ اور شفاف نظام قائم ہو سکے گا۔ جن لوگوں نے نظام میں بہتری لانی ہے اور بہتری کا ٹھوس متبادل نظام لانا ہے وہی روایتی سیاست میں جکڑے نظر آ رہے ہیں۔ بد قسمتی سے جس انداز سے پارلیمانی اور جمہوری نظام چل رہا ہے وہ کسی بھی طور جمہوری و سیاسی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا جس کی وجہ سے ملک میں بحران بڑھتا نظر آ رہا ہے۔

جہاں تک پارلیمنٹ کے کردار کا سوال ہے تو اہم ایشوز پر سنجیدہ قانون سازی تو اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر ایسی قانون سازی کریں جس کے اثرات ملک میں سسٹم کے حوالے سے اچھے ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی صورتحال جمہوریت کی کمزوری کا ثبوت ہے اور نیا رجحان یہ سامنے آ رہا ہے کہ جن ایشوز کے حل کیلئے عوام الناس ووٹ کی پرچی کو بروئے کار لا کر انہیں فیصلوں کا اختیار دیتے ہیں وہ اپنے اس اختیار کو بروئے کار لانے کے بجائے اپنی نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے معاملات عدالتوں کے سپرد کرنے جاتے ہیں۔ جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ کیا پارلیمنٹ اور اس کے ارکان میں اہلیت کا فقدان ہے ۔
 

Advertisement