اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ عراق کی صورتحال سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اس آگ کی چنگاریاں ہماری طرف آسکتی ہیں۔ یہ صورتحال ہماری پیدا کردہ نہیں ہم متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایران امریکا کشیدگی میں کسی تنازع کا حصہ بنیں گے نہ ہی استعمال ہونگے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کا ایک پس منظر ہے۔ اگرایران ردعمل دے گا تو کیا خیال ہے امریکا کیا کرے گا؟ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہہ رہے ہیں خطہ نئی جنگ کی طرف چلا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک بالکل ہے، ان کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔ میں نے پہلا فون جواد ظریف کو کیا، حکومت پاکستان کا موقف پیش کیا، سوشل میڈیا پرغلط فہمیوں کودرست کرنے کی کوشیں کیں، مشکورہوں ایرانی وزیرخارجہ نے کوئی سوالیہ نشان نہیں اٹھایا۔ ایران امریکا کشیدگی میں کسی تنازع کا حصہ بنیں گے نہ ہی استعمال ہونگے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میرا مقصد نازک صورتحال سے ایوان کواعتماد میں لینا ہے، یہ پاکستان نہیں پورے خطے کا چیلنج ہے۔ یہ صورتحال ہماری پیداکردہ نہیں ہم متاثر ہوسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہم خاموش تو نہیں بیٹھے۔
اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کا موقف بھی سنا،وہ بھی نہیں چاہتے معاملات زیادہ بگڑیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان امن تباہ کرنے والے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا، ترجمان پاک فوج
ملائیشیا سمٹ کانفرنس کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا کی وبا دنیا میں پھیل رہی ہے، حکومت نے مہاتیرمحمد کی سوچ سے اتفاق کیا تھا۔ مسئلہ یہ ہوا کچھ دوستوں کو قائل کرنے میں ہمیں وقت درکارتھا، دوستوں نے کہا ایسے عمل سے امہ تقسیم ہو جائے گی، شک وشبہ کو دور کرنے کے لیے وزیراعظم نے اپنا رول ادا کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد، ترکی کی سوچ کے بارے میں سعودی عرب کو بتایا، پاکستان نے لاتعلقی نہیں بلکہ پیچھے ہٹا، ملائیشیا کے وزیراعظم مطمئن، ترکی کے صدر کو فکر نہیں، رجب طیب اردوان اگلے ماہ پاکستان آرہے ہیں، ترکی، ملائیشیا کو تشویش نہیں ہم کیوں برف کی طرح پگھلتے جارہے ہیں۔
خواجہ آصف کی طرف سے اُٹھائے گئے پوائنٹ پر ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی پوائنٹ سکورننگ میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات پرتنقید سے گریزنہیں کرتے۔ آپ کوعلم ہی نہیں صورتحال کیا ہے ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ پر ایک اور جنگ کے سائے، پاکستان کا صورتحال پر اظہار تشویش
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں پیشرفت آپ کو دکھائی نہیں دیتی، حیران ہوں ہاؤس میں آپ کالا چشمہ لگا کر بیٹھ جائیں اور دکھائی نہ دے، خواجہ آصف کو اطیمنان ہو نہ ہوچین کواطیمنان ہے۔
افغانستان سے متعلق قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں ڈائیلاگ میں اہم کردار ادا کیا، افغانستان میں امن سے ہمیں فائدہ ہوگا، جملہ بازی سے اپنے ملک کے مفاد کو نہیں روندنا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر سے متعلق اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دوبارہ سکیورٹی کونسل میں کشمیر مسئلے پر بریفنگ کی توقع کر رہے ہیں، وہاں پر دوبارہ مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں گے،
ان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ ہمارے فاصلے کم ہوئے ہیں، بلند آوازمیں کہا گیا روس کے ساتھ بریک تھروآپ نے جو کیا اس کا تھوڑا تھوڑا ہمیں بھی علم ہے؟ روس کی اہمیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، آج روس طالبان کو ماسکوسمٹ میں بلا کر ان سے مذاکرات کر رہا ہے، آپ کے زمانے میں توایسا نہیں تھا۔
سینیٹ اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملے سے افغان امن عمل اور خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ خطہ عرصہ دراز سے کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار رہا، موجودہ حالات نے نئے تناؤ اور کشیدگی کو جنم دیا، بغداد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کیا گیا، امریکا نے ایران اور جنرل قاسم سلیمانی کو احتجاج کا ذمہ دار ٹھہرایا، 3 جنوری کو ڈرون حملے میں ایرانی جنرل سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا، ڈرون حملے میں ایرانی جنرل سلیمانی، ابو مہدی المہندس سمیت 9 افراد مارے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے اس حملے کو تشویشناک قرار دیا، حملے کے بعد ایران میں احتجاج کی کیفیت بن گئی، ایرانی عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، ایرانی حکومت نے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا، عراق میں بھی ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی، عراق میں اس واقعہ کے خلاف عوامی ردعمل سامنے آیا، موجودہ حالات نے نئے تناؤ اور کشیدگی کو جنم دیا، مشرق وسطیٰ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران سمیت دوست ممالک کے وزرائے خارجہ سے بات چیت ہوئی، دیگر ممالک سے بھی رابطوں کی کوشش کر رہے ہیں، یورپی یونین کے سامنے بھی اپنا موقف پیش کریں گے، مشرق وسطیٰ کی صورتحال کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے، ایرانی صدر حسن روحانی اس واقعہ کو عالمی دہشتگردی قرار دے چکے، جواد ظریف نے کہا یہ قدم احمقانہ تھا اور اس سے کشیدگی بڑھے گی۔