لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مہنگائی کے ذمہ داران کو ایک ایک کر کے پکڑنے اور انجام تک پہنچانے کا اعلان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت کو اس امر کا احساس ہوا ہے کہ مہنگائی اسکی مقبولیت پر اثر انداز ہوئی ہے۔ منافع خور عوام کا جینا اجیرن بنا رہے اور ذخیرہ اندوز دونوں ہاتھوں سے مسائل زدہ عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے اسے مسلسل بحرانوں کا سامنا ہے۔ لوگ ایک بحران سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرا بحران آ دبوچتا ہے۔ عوام گزشتہ کئی برس سے مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں مگر اس رجحان کا قلع قمع ممکن نہیں ہوا جبکہ دوسری جانب لوگوں کے مسائل اور ذرائع آمدن میں اضافہ ممکن نہیں بن رہا یہی وجہ ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری کے ہاتھوں عام آدمی کی قوت خرید میں زبردست کمی آ چکی۔ آٹا بحران کے ذمہ دار نشانِ عبرت بن جائیں تو مستقبل میں ایسا پھر نہ ہوگا، مافیاز کو پکڑنے کیلئے بڑے دل گردے کی ضرورت، ہاتھ جلنے کا خدشہ ہوگا، لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں۔
حکومت کیونکر ان کا قلع قمع نہیں کر پاتی اور کیا وزیراعظم عمران خان کی جانب سے گرانفروشوں کو انجام پر پہنچانے کا عزم پورا ہو سکے گا۔ مہنگائی کے رجحان اور عوامی سطح پر پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایک بڑی وجہ یہ سامنے آ رہی ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو ریلیف مہنگائی کے سدباب، روزگار کی فراہمی سمیت بہت سے وعدے کئے تھے۔ عوام کو ان سے بہت سی توقعات تھیں۔ عملاً جب پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی تو ثابت ہوا کہ ان کے پاس قیادت تو ہے مگر پالیسیوں کا فقدان ہے۔ اقتدار میں آنے کی خواہش تو تھی مگر حکومت چلانے کیلئے تجربہ کار سسٹم موجود نہ تھا۔ اب حالیہ آٹے کے بحران نے حکومت کو عوامی محاذ پر ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے اس لئے کہ آٹا ہر شخص کی زندگی کا لازمی جزو ہے اور آٹے کے بحران سے عام آدمی کو پیٹ بھرنے کیلئے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
یہ بحران کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہ تھا بلکہ ملکی سطح پر آٹے کی عدم دستیابی اور اس کی قیمتوں میں اضافہ کے عمل نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا جس کا بڑا ثبوت خود حکومتی ذمہ داران کے بیانات میں تضادات تھا۔ کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ گندم وافر تعداد میں موجود ہے۔ قیمتوں کا بحران پیدا کیا گیا کسی کا کہنا تھا کہ گندم ایکسپورٹ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا جس کے باعث آٹے کا بحران پیدا ہوا اور عملاً صورتحال یہ تھی کہ حکومت آٹے کی مقررہ قیمت پر فراہمی کیلئے موثر اقدامات کی بجائے مضحکہ خیز بیانات سے لوگوں کا پیٹ بھرنے میں کوشاں رہی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایک دوسرے کو مرد الزام ٹھہرانے کا سلسلہ جاری رہا۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان میں آج تک اگر نوبت فاقہ کشی تک نہیں پہنچی تو اس کی بڑی وجہ یہی قرار دی جاتی ہے کہ یہاں حالات کچھ بھی ہوں حکومت کیسی بھی ہو مگر عام آدمی کیلئے روٹی کبھی مسئلہ نہیں بنا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اب اسی روٹی کے عوام کو لالے پڑ گئے ہیں اور اب وفاقی کابینہ نے 3 لاکھ گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ ذمہ داری کون قبول کرے گا کہ پہلے سستے داموں گندم کیوں باہر بھجوائی گئی، جو اب مہنگے داموں منگوائی جا رہی ہے۔ خود وفاقی وزیر شیخ رشید نے تو اس شبہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ بظاہر گندم منگوانے کا اعلان ہوا ہے۔ ہمیں نظر رکھنا پڑے گی کہ اس اعلان کے ساتھ کہیں گندم یہیں سے ہی مہیا نہ ہو جائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آٹے اور گندم کے بحران کے پیچھے کچھ نہ کچھ دال میں کالا ہے اور اس بحران میں کچھ حکومتی ذمہ داران بھی شامل ہیں جنہوں نے اس کے ذریعہ اپنی تجوریاں بھرنے کا پروگرام بنایا اور اب وہ اس کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔