ایران، افغانستان اور بھارت سے آنیوالوں کو دو دن قرنطینہ میں رکھا جائے گا: معید یوسف

Last Updated On 18 April,2020 06:04 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ تینوں سرحدوں (ایران، افغانستان اور بھارت) سے آنیوالوں کو دو دن قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

وزیراعظم کے ہمراہ میڈیا بریفنگ کے دوران ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتےدو ہزار مسافر جو آئے تھے ان میں صرف 40 کے رزلٹ مثبت آئے۔ آئندہ ہفتے میں پرائیویٹ ائیرلائنز سے بھی پاکستانی واپس آئیں گے۔طورخم سے 500پاکستانی آج واپس آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی تعداد بڑھانے پر اوورپاکستانی واپس آسکتےہیں۔ رواں ہفتے آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے پاکستانی واپس آئیں گے۔ کچھ ممالک میں پی آئی اے کی رسائی ممکن نہ تھی۔

مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ 19اپریل سے ہفتہ وار6 ہزار پاکستانی واپس آسکیں گے، ایک ہفتے میں پاکستانیوں کی واپسی کی تین گنا صلاحیت بڑھا دی ہے، اگلے ہفتے پاکستانیوں کی واپسی کی تعداد7 ہزار سے زیادہ کردیں گے، اس ہفتے آسٹریلیا اورملائشیاء سے بھی پروازیں آئیں گی۔ 

معاون خصوصی برائے قومی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ تمام فیصلے صوبوں کی مشاورت سے ہورہےہیں۔ 

پریس کانفرنس کے دوران معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہونی والی اموات کورونا سے نہیں ہوئی، صرف 15 اموات پر تحقیقات ہورہی ہے۔ خدشا تھا کہ 25 اپریل تک کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا۔ کھانسی ،نزلہ اور زکام میں سماجی دوری اختیار کرنی چاہیئے۔ ہیلتھ سسٹم پر ہم بوجھ نہیں ڈالنا چاہتےہیں۔ آج ہم اس وقت مشکل حالات میں نہیں ہے جتنے میں ہو سکتے تھے۔ سارے صوبوں سے اعدادوشمار آتے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر گلوبل ڈیٹا کو دیکھتےہیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر 10 گنا زیادہ سامان مہیا ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں بیروزگارہونیوالوں کی امداد کریں گے۔ آئندہ ماہ قرضہ حسنہ سے متعلق بھی اسکیم لائیں گے۔ آئندہ دو ہفتے میں چھوٹے کاروبار سے متعلق بھی پروگرام لائیں گے۔ آئندہ دو ہفتے میں بجلی کے بلوں میں امداد سے متعلق اسکیم لائیں گے۔

پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر برائے منصوبہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر عوام کے مفاد میں فیصلے کرتے رہیں گے۔ ٹی وی پر سیاست ہورہی ہے لیکن ہونی نہیں چاہیئے۔ فیصلہ سازی باہمی مشاورت سے ہورہی ہے، فیصلے سیاست سے نہیں ہو رہےعوام کیلئے ہو رہے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ لاکھوں ٹیسٹ کٹس موجود ہیں، افرادی قوت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ صحت کی سہولیات اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بڑھائی جارہی ہے۔ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے مرحلہ وار روزگار کو ریلیف دیں گے۔ بات اب غریب طبقے سے نکل کر متوسط طبقے تک پہنچ گئی ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن مکمن نہیں ہے۔ کوشش کررہےہیں ایسا نظام لایا جائے جس میں مشکلات کم ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے بے روز گاری میں اضافہ ہوا، بیماری سے بچنا ہے ساتھ ساتھ روزگار کو بھی بچاناہے، غریب اوردیہاڑی دار طبقے کیساتھ ہمدردی ہے، ان کا درد سمجھ سکتے ہیں، لوگوں کے روزگارکامسئلہ اس طرح حل کرنا ہے کہ کورونا بھی نہ بڑھے۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے کوشاں ہیں۔