لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) امریکہ اور طالبان کے دوہا معاہدہ کے نتیجہ میں اگر بڑا مقصد افغانستان میں تشدد اور دہشت گردی میں کمی لانا تھا تو یہ کسی حد تک پورا ہو گیا ہے لیکن افغانستان میں امن عمل آگے بڑھانے اور یہاں ایک مضبوط حکومت کا خواب یقینی بنتا نظر نہیں آ رہا اور رپورٹس یہی ہیں کہ جب تک افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں نہیں آتا تو یہاں نہ تو امن کا خواب پورا ہوگا اور نہ ہی افغانستان میں ترقی و خوشحالی کا عمل آگے چل پائے گا۔ معاملات کو آگے بڑھانے اور چلانے کیلئے افغانستان کے حوالے سے امور کے ذمہ دار زلمے خلیل زاد بھی سرگرم عمل ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے دو روز قبل مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی جس میں انہیں بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کیلئے ممکنہ کوشش اور کاوش جاری رکھے گا۔
عملاً صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت افغان سر زمین پر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان متوازن حکومت کیلئے کاوش ایک نئی صورتحال کو جنم دے رہی ہے اور امریکہ کی جانب سے ان پر امن عمل کے حوالے سے دباؤ بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا اور امریکہ نے اپنے تحفظات کے طور پر افغانستان کی مالی امداد میں بھی ایک ارب ڈالر کی کمی کر کے پیغام دیا لیکن بہرحال اسے اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ موسم میں تبدیلی کے بعد اگر معاہدے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں رہیں تو یہاں حملوں اور دہشتگردی میں اور اضافہ ہو سکتا ہے اور اس تمام صورتحال کا مایوس کن پہلو بس یہی ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت میں کمی کی بجائے آنے والے دنوں میں اس میں اور اضافہ کا خطرہ ہے اور خصوصاً کورونا وائرس کے حوالے سے بھی اٹھنے والا بحران ایک نئی صورتحال کا باعث بنتا نظر آ رہا ہے۔
افغان انتظامیہ کیلئے امریکی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی بھی بڑے پیغام کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ یہ امداد افغان فورسز کو دی جانے والی امداد کا حصہ تھی اور اگر انہیں مطلوبہ امداد فراہم نہیں کی جاتی تو افغان فورسز کے ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اگر افغان فورسز کو مالی وسائل فراہم نہیں ہوں گے تو اس میں اور زیادہ بددلی پھیلے گی اور اس کا براہ راست فائدہ طالبان کو ہوگا جو خود کو امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد زیادہ مضبوط اور موثر سمجھ رہے ہیں اور اگر افغان فورسز کمزور ہوتی ہیں تو اس کے براہ راست اثرات افغان انتظامیہ پر پڑیں گے لہٰذا اس وقت افغانستان کی صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان فریق افغان انتظامیہ اور اس کے سربراہ ڈاکٹر اشرف غنی ہیں جو اپنی سیاسی حیثیت میں کمزوری آنے کے بعد مالی لحاظ سے کمزوری کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور اگر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے اور امریکہ اپنا ہاتھ کھینچتا چلا جاتا ہے تو پھر اشرف غنی کے پاس سرنڈر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا اور بالآخر امریکہ طالبان معاہدے کی رو سے طالبان کیلئے راہ ہموار ہوتی جائے گی اور طالبان کے حوالے سے تو خود امریکہ اور اسکے اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں سیاسی حوالے سے طالبان بھی اس حیثیت میں ہیں کہ وہ حکومتی نظم و نسق چلانے کے ساتھ یہاں قتل و غارت کا سلسلہ بند کرپائیں گے کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے نظم و نسق میں افغانستان کی تصویر اشرف غنی کے افغانستان سے ملتی جلتی ہو۔
جہاں تک مذکورہ صورتحال میں پاکستان کے کردار کا سوال ہے تو پاکستان نے براہ راست افغان صورتحال میں کسی کے ساتھ فریق بننے کی بجائے اپنے کردار کو افغانستان میں امن اور استحکام کے ساتھ مشروط رکھتے ہوئے اپنی جانب سے ممکنہ معاونت فراہم کی اور امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے سہولت کار کا کردار بھی ادا کیا اور خود امریکہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار اہم ہے اور پاکستان نے مذاکراتی عمل کو یقینی بنا کر اس کا ثبوت بھی فراہم کر دیا ہے لیکن اب بھی امریکہ افغانستان میں وسیع البنیاد مذاکراتی عمل میں پاکستان کا کردار چاہتا ہے اور پاکستان کے اس حوالے سے کسی کردار بارے بہت سی سوچ بچار کرنی ہوگی البتہ امریکہ نے اپنے شہری مارک فزنچر کی رہائی کیلئے پاکستان سے مدد مانگی ہے۔ امریکی نمائندہ زلمے خلیل داد کی جانب سے ظاہر کی جانے والی حیرانگی خطہ کی صورتحال کے حوالے سے اہم ہے اور یہ درست ہے کہ بھارت نے افغانستان میں امن کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی بجائے افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک میں بدامنی کیلئے استعمال کیا اور اس کے شواہد موجود ہیں لہٰذا امن عمل میں بھارت کی جانب سے کسی قسم کے کردار کو خام خیالی ہی قرار دیاجا سکتا ہے۔ وہ تو یہ بات بھی ہضم نہیں کر پایا کہ آخر پاکستان اس سارے عمل میں بنیادی کردار کیسے ادا کر گیا، پاکستان کی دنیا بھر میں اس کردار پر پذیرائی اور تحسین کا اظہار بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا جو خطرناک ہے۔