قندھار: (ویب ڈیسک) افغان طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر کے بیٹے محمد یعقوب کو طالبان کا عسکری چیف مقرر کر دیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے نائب بھی ہیں۔ محمد یعقوب عسکری چیف کے ساتھ ساتھ نائب امیر بھی رہیں گے۔
دوسری طرف طالبان نے قیدیوں کے تبادلہ کے سلسلے میں مزید 48 افغان فوجی رہا کر دیے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے ترجمان طالبان سہیل شاہین نے بتایا کہ مزید 48 افغان فوجیوں کو رہا کر دیا ہے، قیدیوں کا تبادلہ تمام قیدیوں کی رہائی تک جاری رہے گا۔
دریں اثناء کابل انتظامیہ امریکا کے ساتھ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے معاہدے کے تحت اب تک 900 سے زائد طالبان قیدیوں کو رہا کرچکی ہے۔
یہ رہائی امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے کیے گئے معاہدے میں شامل قیدیوں کے تبادلے کے پروگرام کا حصہ ہے جس میں درجنوں افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے بتایا ک اب تک افغان جیلوں سے 9 سو 33 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ کابل نے اب تک کم خطرہ رکھنے والے طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے جو لڑائی سے دور رہنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔
طالبان کا اصرار ہے کہ افغانستان کی جیلوں میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث ان کے اراکین کی رہائی میں تیزی لائی جائے۔
معاہدے کے تحت طالبان نے امریکی فوجی اتحاد پر فضائی حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن افغان فوجیوں کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔
افغان حکام نے ملک میں تشدد میں اضافہ رپورٹ کیا ہے جس کے باعث طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی کوششیں تعطل کا شکار ہوگئی ہیں۔
امریکا نے معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال جولائی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا جبکہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ مذاکرات شروع ہوئے تھے جو بین الافغان مذاکرات کا حصہ ہیں، جس کے لیے طالبان کا 3 رکنی وفد کابل پہنچا تھا اور حکومت کی جانب سے بھی دیگر اسٹیک ہولڈر کی رضامندی سے ایک وفد تشکیل دیا تھا۔
طالبان اور افغان حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات میں اس وقت تعطل آیا تھا جب کابل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان سرفہرست 15 کمانڈروں کی رہائی چاہتے ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے کہا تھا کہ افغان حکومت غیر ضروری طورپر وقت ضائع کر رہے ہیں۔
قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے 8 اپریل کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے مذاکراتی وفد کو کابل سے واپس بلا لیا ہے کیونکہ افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات معطل ہوگئے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قیدیوں کی رہائی میں غیر ارادی تاخیر امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے اس لیے ہم نے اپنی ٹیکنیکل ٹیم کو کابل سے واپس بلالیا ہے۔
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کابل کے دورے میں افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد پیشرفت ہوئی ہے۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پیشرفت کی ہے جس کا کچھ اظہار میڈیا میں بھی ہورہا ہے اور بیانات بھی آرہے ہیں۔
بعدازاں 9 اپریل کو طالبان کی جانب سے کابل کے ساتھ مذاکرات سے دستبردار ہونے کے اعلان کے ایک روز بعد ہی افغان حکومت نے کم خطرے والے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا۔