لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ہفتہ دس روز میں بلوچستان میں دہشت گردی کے علیحدہ علیحدہ واقعات اور اس میں مسلح افواج کے جوانوں کی شہادتوں کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایک منظم انداز میں بلوچستان کی سر زمین پر دہشت گردی اور تخریب کاری کو پروان چڑھا کر ایک مذموم اور مکروہ ایجنڈا پر کام شروع ہے اور جب بھی مسلح افواج کے افسر و جوان ہدف بنتے ہیں تو اس پر کوئی دو آرا نہیں کہ یہ ہمارے دشمن کی کارستانی ہوتی ہے اور انہیں پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے میں بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج اور فوج کو ہدف بنائے بغیر ان کا مذموم ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ سفاک اور مذموم عمل ظاہر کر رہا ہے کہ دشمن بلوچستان کی سر زمین پر اپنے مذموم ایجنڈا کے تحت سرگرم ہے اور اس ایجنڈا کی سب سے بڑی رکاوٹ پاک فوج کی لاک بنائے ہوئے ہے، لیکن کیا یہ ایجنڈا پورا ہو سکے گا ؟۔ یہی بنیادی سوال ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے خود بھارت اور اس کے مودی سرکار کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں اور اس حوالے سے ان ان کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں۔
دوسری جانب بھارت کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ افغان سر زمین کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کرواتا رہا ہے اور اب افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا مثبت کردار ہضم نہیں کر پا رہا اور افغانستان میں این ڈی ایس اور را کے گماشتے پاکستان کے اس مثبت کردار کا جواب یہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعہ دے کر پاکستان کو اس کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ مغربی سرحد پاکستان کی سکیورٹی کیلئے بڑا خطرہ بن کر سامنے آ رہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سکیورٹی نکتہ نظر کے حوالے سے اتنے خطرات کا سامنا مشرق کی جانب سے نہیں جتنا مغربی سرحد کی جانب سے ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ ملی ہوئی تقریباً 24 کلو میٹر طویل سرحد کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا آسان کام نہیں یکطرفہ طور پر کوئی ایک ملک یہ ذمہ داری سر انجام نہیں دے سکتا۔ سرحد کی دوسری جانب حکومتوں اور ان کے اداروں کو بھی ذمہ داری لینا ہوگی اور یہ جاننا ہوگا کہ دہشت گرد کسی کے دوست نہیں، ان سے نمٹنا خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
پاکستان کا شروع سے مؤقف ہے اور اس کے پاس شواہد ہیں کہ بھارت پاکستان کے مغربی ہمسایہ ملکوں کی سر زمین کو پاکستان میں شورش پیدا کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے مگر افسوس ان کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے، اس حوالے سے حکومت پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ان ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلائے اور بتائے کہ بھارت اس خطہ میں کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور نقل و حرکت پر نظر رکھنا سب کے مفاد میں ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھی اٹھایا جانا چاہئے اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ بھارت کی انتہا پسند لیڈر شپ خطہ کو انتہا پسندی اور شدت پسندی کی آگ میں جلانے پر مصر ہے اور دنیا اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ جہاں تک بلوچستان کے عوام کا تعلق ہے تو وہ جذباتی انداز میں پاکستان میں وہ اپنی سر زمین کے حوالے سے بھارت کے عزائم کو جانتے ، پہچانتے ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے کہ بھارت پہلے بھی بلوچستان میں شورش کو ہوا دیتا رہا ہے جس کا ثبوت کلبھوشن یادیو کی صورت میں ہمارے پاس ہے ۔ ان دو واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آ رہا۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات خصوصاً بلوچستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششوں کے خلاف ایک جامعہ حکمت عملی بنائی جائے تو بھارت کے جارحانہ عزائم سے نمٹنے کیلئے قوم کے اندر اتحاد و یکجہتی کو یقینی بنایا جائے اور دنیا کو باور کرا دیا جائے کہ ہم اپنے جوانوں کے لاشے مزید نہیں اٹھا سکتے اور اپنی سر زمین کے تحفظ کیلئے جو ممکن بن سکا کریں گے۔ بھارت کا دکھ ، تکلیف اور اسے لاحق مرض ہم جانتے ہیں اور اس کا مؤثر علاج ہمارے پاس ہے جس کا ثبوت ہم نے گزشتہ سال اس کی جانب سے بالاکوٹ پر شب خون مارنے کے عمل کا جواب 24 گھنٹوں کے اندر اس کے دو طیارے مار گرا کر اور دنیا کو دکھا کر دے دیا تھا کہ ہماری ترجیح اپنی سر زمین اور سرحدوں کا تحفظ ہے۔