اسلام آباد: (دنیا نیوز) چینی بحران میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ ہوگیا۔ سفارشات کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف مقدمات دائر کیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے اتوار کو اجلاس طلب کرلیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں معاون خصوصی احتساب مرزا شہزاد اکبر چینی بحران کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے سفارشات پیش کریں گے۔ سفارشات کی روشنی میں چینی بحران کا ذمہ دار قرار دئیے گئے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات نیب اور ایف آئی اے کو بھجوائے جائیں گے۔ حتمی منظوری وزیراعظم دیں گے۔
واضح رہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین اور دیگر کو ذمہ دار قرار دیاگیاتھا۔ جہانگیر خان ترین رواں ہفتے ہی برطانیہ جا چکے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے طبی معائنے کے لیے برطانیہ آئے ہیں۔
یاد رہے کہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ چینی شوگر انکوائری رپورٹ میں تمام لوگ جیل جائیں گے کوئی نہیں بچے گا۔
یہ بھی پڑھیں: شوگر سکینڈل میں ملوث تمام افراد جیل جائیں گے: وزیر ریلوے شیخ رشید
یاد رہے کہ ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے کے لیے بننے والے چھ رکنی تحقیقاتی کمیشن نے حتمی رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین، مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی، اومنی گروپ اور مخدوم خسرو بختیار کے بھائی عمرشہریار چینی بحران کو ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں پیدا ہونے چینی بحران کے باعث شوگر انکوائری کمیشن 10 مارچ کو تشکیل دیا گیا۔ شوگر کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا۔ شوگر کمیشن ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں 6 رکنی ممبران پر مشتمل تھا۔ کمیشن میں ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس، ڈپٹی ڈی جی آئی بی احمد کمال، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایس ای سی پی بلال رسول، جوائنٹ ڈائرکٹر سٹیٹ بینک ماجد حسین چوہدری اور ڈی جی ایف بی آر انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ ڈاکٹر بشیر اللہ خان بھی شامل تھے۔
انکوائری کمیشن نے 63 دنوں میں رپورٹ تیار کی۔ اس دوران 220 مختلف افراد سے پوچھ گچھ کی۔
رپورٹ میں جے ڈی ڈبلیو شوگر مل۔ خسرو بختیار۔ سلمان شہباز کی شوگر ملز سمیت 10 شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا۔ رپورٹ میں 600 ارب روپے سے زائد مالیت کے بے نامی کاروبار کا آڈٹ کیا گیا۔ فرانزک آڈٹ کے دوران کمیشن نے اسد عمر، خرم دستگیر اور شاہد خاقان عباسی کے بیانات ریکارڈ کیے۔ اس کے علاوہ عثمان بزدار اور رزاق داؤد بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جبکہ وزیراعلی سندھ طلبی کے باوجود پیش نہ ہوئے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ شوگرملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتی ہیں اور کسانوں کو گنے کےوزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے۔ کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سےگنا خریدا جاتا ہے اور اس کی لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا کہ 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا اور شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں جب کہ چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔
2018-2017 میں شوگر ملز نے چینی کی فی کلو لاگت 51 روپے رکھی جب کہ اس عرصے میں فی کلو لاگت38 روپے تھی۔ 2019-2018 میں اصل لاگت میں ساڑھے 12 روپے فی کلو کا فرق پایا گیاجب کہ 20-2019 میں چینی کی فی کلو لاگت میں 16 روپے کا فرق پایا گیا۔
کسانوں کے ساتھ مل مالکان اَن آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف فیملی کی کمپنی میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی، 2018۔2017 میں انہوں نے ایک اعشاریہ تین ارب روپے اضافی کمائے جب کہ19۔2018 میں انہوں نے 78 کروڑ روپے اضافی کمائے۔
فرانزک آڈٹ میں شارٹ لسٹ کی گئِی ملز میں پہلی مل الائنس ہے جو آر وائی کے گروپ کی ملکیت ہے، آر وائی کےگروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے اومنی گروپ کے فائدے کے لیے سبسڈی دی. سندھ حکومت نے 9.3 ارب روپے کی سبسڈی دی، کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کے لیے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے کوئی سبسڈی نہیں دی، 2018میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں سبسڈی دی گئی۔
رپورٹ میں تجاویز دی گئیں کہ ریکوری کی رقم گنےکےمتاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔
کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے، جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔