جج ارشد ملک کی برطرفی، مریم نواز نے فیصلے کو سچ کی فتح قرار دیدیا

Last Updated On 03 July,2020 06:33 pm

لاہور: (دنیا نیوز) مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز شریف نے جج ارشد ملک بارے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے انصاف کے دامن پر لگا ایک بڑا داغ دھویا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ اللہ کا بے انتہا شکر جس کے ہاں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔ اب عدلیہ کے وقار اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ داغدار جج کے داغدار فیصلوں کو بھی پھاڑ پھینکا جائے۔

انہوں نے لکھا کہ آج کا فیصلہ بے شک سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست ہے۔ اس فیصلے نے نواز شریف پر ہی نہیں، عدل وانصاف کے دامن پر لگا ایک بڑا داغ دھویا ہے۔

مریم نواز شریف نے لکھا کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے مقبول ترین سیاستدان کی بے گناہی پر وقت کا فیصلہ آ گیا ہے۔ سات محترم جج صاحبان نے جج کی برطرفی کے ذریعے واضح کر دیا کہ نوازشریف کو کس طرح سزائیں دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف کبھی ادھورا نہیں ہوتا۔ مکمل انصاف کا تقاضہ ہے کہ جس طرح جج کو برطرف کیا گیا ہے اسی طرح اس کے بدعنوان فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

لیگی رہنما نے کہا کہ آئین اور قانون کے احترام کا درس دینا بہت آسان ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ آپ بے قصور ہوں، جانتے ہوئے کہ ظلم اور ناانصافی ہو رہی ہے۔ اپنی شریک حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر قانون کے سامنے سر جھکا دینے کے لئے نواز شریف کا جگر اورحوصلہ چاہیے۔ اللّہ بے گناہ اور بہادر لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں جو اپنا آپ اور اپنا خاندان بکھرتا دیکھتے ہیں۔ بڑے سے بڑا نقصان اٹھا لیتے ہیں، مگر آئین اور قانون کو سربلند رکھتے ہیں۔ نواز شریف کا صبر جیت گیا، ان کی استقامت جبر پر بھاری رہی۔ نواز شریف کے چاہنے والے اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا ارشد ملک کی برطرفی کے فیصلے پر اظہار تشکر

دوسری جانب صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے ارشد ملک کی برطرفی کے فیصلے پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہوگیا کہ جج نے انصاف کے منافی فیصلہ دیا۔

شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ملک کی مخلصانہ خدمت کرنیوالے نواز شریف کی بے گناہی کو ثابت کر دیا۔ ملک کے تین بار کے منتخب وزیراعظم کو ناحق سزا دی گئی۔ سچائی سامنے آنے پر انصاف کا تقاضا ہے کہ نواز شریف کیخلاف سزا کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کا فیصلہ دراصل نواز شریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔ پارٹی کارکنان اور عوام سے اپیل ہے کہ نواز شریف کی بے گناہی ثابت ہونے پر نوافل ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل میں‌ ملوث جج ارشد ملک کوعہدے سے برطرف کر دیا گیا

خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کر دیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کے زیر صدارت انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔

تفصیل کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کی۔ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے 7 سینئر ججز بھی شریک رہے۔

اجلاس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی نے شرکت کی۔ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔

6 جولائی 2019ء کو صدر ن لیگ شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوز جاری کی گئیں۔ ویڈیوز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی گئی۔

7 جولائی کو رجسٹرار احتساب کورٹ نے جج ارشد ملک کا تردیدی بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ کوئی لالچ بھی میرے پیش نظر نہیں تھا۔

12 جولائی کو ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کی خدمات وزارت قانون کو واپس کر دی گئیں۔ اس روز ہی ارشد ملک کو اسلام آباد کی احتساب عدالت سے فارغ کر کے ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئیں۔

16 جولائی کو سپریم کورٹ نے پہلی بار ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کی،اسی روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں ویڈیو اسیکنڈل بارے اشتیاق مرزا ایڈوکیٹ کی دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی گئی، 16 جولائی کو ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔

16 جولائی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں۔ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیس پر اثر پڑے گا۔

16 جولائی کو ہی جج ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت ان کی ویڈیو بنانے کے حوالے سے مقدمہ درج کیا۔

17 جولائی کو ایف آئی اے نے ویڈیو فراہم کرنے میں ملوث ایک ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا، 23جولائی کو سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو 3 ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔

20 اگست کو سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ 23 اگست کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی اُن کے خلاف فرد جرم ہے، 14 ستمبر 2019 کو جج ارشد ملک کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔

24 دسمبر 2018ء کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 2 ریفرنسز بارے فیصلہ سنایا تھا۔ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کو باعزت بری کیا تھا۔

نواز شریف پر 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے سمیت تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔