بابو سر ٹاپ کے قریب بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ، ہزاروں مسافر پھنس گئے

Published On 25 August,2020 10:11 pm

ناران: (دنیا نیوز) بابو سر ٹاپ کے قریب بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہنزہ سے گلگت جانے والے مسافر پھنس گئے۔

تفصیلات کے مطابق ناران بابو سر ٹاپ کے قریب بارش کے باعث بھاری لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے، روڈ بندش سے ہنزہ گلگت جانے والے مسافر پھنس گئے۔ پھنس جانے والے مسافروں میں ہزاروں سیاح فیملیز بھی شامل ہیں۔ تاحال انتظامیہ کی جانب سے روڈ کو کھولنے کے اقدامات نہ ہو سکے۔

دونوں اطرف سیکڑوں گاڑیاں موجود ہیں۔ موسم کی خرابی کے باعث امدادی کام میں تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ لینڈ سلائیڈنگ بابو سرٹاپ سے 8 کلو میٹر دور ہوئی ہے،

مسافروں کا کہنا ہے کہ سڑک کھولنے کے لیے ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔

خیال رہے کہ چند روز قبل ناران کاغان میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے حکام کے مطابق خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات میں ہوٹل ملازمین میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد درجنوں سے زائد ہوٹل بند کر دیے گئے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ضلعی حکومت کے اہلکار مقبول حسین نے بتایا کہ شوگراں، ناران اور کاغان جیسے زیادہ متاثرہ علاقوں میں اتوار سے لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن 47 ہوٹل ملازمین کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے انہیں انہی ہوٹلوں میں قرنطینہ کیا گیا ہے جہاں وہ کام کرتے ہیں۔

سیاحتی مقامات پر ہوٹل ملازمین میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں سے کئی صارفین عوام کو مورود الزام ٹھہراتے نظر آئے تو کچھ نے حکومت کے سیاحی مقامات کو کھولنے کے فیصلے پر تنقید کی۔

واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت اور بل گیٹس نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان کا حوالہ کامیاب مثال کے طور پر دیا ہے۔ اب جبکہ پاکستان کورونا وائرس کی آخری لہر سے نمٹ رہا ہے اور ملک میں فعال کیسوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب رہ گئی ہے ایسے میں سیاحت کے شعبے کا کھلنا اور لاکھوں لوگوں کا ایک ساتھ ان علاقوں میں بنا کسی حفاظتی اقدامات کے جمع ہونا بہت سے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ ایک عام خیال یہی ہے کہ شاید سیاحت کے شعبے کو کھولنے میں جلدبازی سے کام لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی کمی کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ایس او پیز کے تحت سیاحتی مراکز کھول دیئے گئے ہیں، اس اجازت کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد سیاحتی مقامات کی طرف چل پڑی ہے۔

اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ صرف مالا کنڈ ڈویژن میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 50 ہزار سے زائد گاڑیاں آئی ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سے سات لاکھ لوگ سیاحتی مقامات دیکھنے آئے ہیں۔

دوسری طرف گلگت بلتستان انتظامیہ نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد سیاحوں کی بڑی تعداد گلگت، ہنزہ سمیت دیگر جگہوں پر آ رہی ہے۔

حکام کی طرف سے کہا گیا تھا کہ لاکھوں لوگ سیاحتی مقامات پر سیر و تفریح کرنے آئے ہیں۔ جبکہ کورونا وائرس کے باعث ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ 

یاد رہے کہ پاکستان کی سیاحت بھی معیشت میں اربوں روپے کا حصہ ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے بہت سنجیدہ نظر آتی ہے۔ سال 2020ء کو حکومتِ پاکستان نے ‘سیاحت کا سال’ قرار دیا تھا اور اس کے علاوہ بھی بہت سے مثبت اقدامات کیے گئے تھے، لیکن کورونا کے سبب معاملات میں کچھ تعطل پیدا ہوگیا۔ لیکن حکومت اب بھی یہ امید رکھ رہی ہے کہ اگر سیاحت کی صنعت پر سرمایہ کاری کی جاتی رہی تو اندازے کے مطابق 2025ء تک یہ صنعت ایک کھرب ڈالرز تک ریونیو پیدا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

اسی سلسلے میں ایک قدم پاکستان میں ورلڈ ٹورازم فورم کا انعقاد ہے۔ یہ فورم اسی سال 2020ء میں منعقد ہونا تھا مگر کورونا وائرس کے پیش نظر اسے اب 2021ء میں اسلام آباد میں منعقد کیا جائے گا۔ اس میں ترکی کے علاوہ 8-D (ترقی پزیر آٹھ ممالک) کے سیاحت کے شعبے سے وابستہ وزرا شامل ہوں گے۔

وزیرِاعظم کے مشیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق یہ فورم پاکستان کی سیاحت پر مثبت اثرات مرتب کرے گا اور اس کے بہت دُور رس نتائج نکلیں گے۔ اس سے پاکستان کی سیاحت دنیا بھر کے سیاحتی ممالک میں ابھر کر سامنے آئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹورازم فورم والے روس، قطر، ترکی سمیت کئی یورپی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے روانڈا میں بھی کام کیا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ جس ملک کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں وہاں نہ صرف بھاری سرمایہ کاری آتی ہے بلکہ بڑے نشریاتی ادارے بھی بھرپور دلچسپی لینا شروع کردیتے ہیں جس سے ان ممالک میں سیاحت کو مزید فروغ ملا ہے۔

زلفی بخاری کا دعوٰی ہے کہ اس عالمی سیاحتی فورم کے انعقاد سے اس 5 روزہ فورم کے موقع پر پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنے کی امید ہے اور اس کے علاوہ اس فورم سے اشتہارات اور پروموشن کی مد میں بی بی سی اور سی این این جیسے بڑے نشریاتی اداروں میں 40 کروڑ ڈالر مالیت کے ٹی وی رائٹس بھی ملیں گے۔