لاہور: (دنیا الیکشن سیل) گلگت بلتستان انتخابات 2020ء میں حلقہ گلگت 3 وہ واحد حلقہ ہے جہاں پولنگ 22 نومبر کو ہوگی۔ امیدوار کے انتقال کے بعد تحریک انصاف کے لیے اس حلقے میں صورتحال پیچیدہ ہو چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کا پرانے کھلاڑی پر انحصار ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے متوقع امیدوار کی جانب سے پارٹی بدل لینے کے بعد نیا چہرہ میدان میں لے آئی ہے۔ 11 آزاد امیدوار بھی انتخابی عمل کا حصہ ہونگے۔
گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں گلگت 3 وہ واحد حلقہ ہے جہاں انتخابات عام حلقوں میں پولنگ کے ایک ہفتے بعد ہونگے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار اور مقامی صدر جسٹس (ر) سید جعفر شاہ انتقال کر گئے تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پہلے اس حلقے میں انتخابات ملتوی کر دیے اور پھر انتخابات کے لیے 22 نومبر کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 22 اکتوبر رکھی گئی تھی جبکہ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی تاریخ 6 نومبر مقرر کی گئی۔ گلگت شہر کے اہم علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں 41 ہزار 360 رجسٹرڈ ووٹرز حق رائے استعمال کریں گے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 22 ہزار 341 ہے جبکہ 19 ہزار 19 خواتین ووٹرز ہیں۔
سید جعفر حسین شاہ کی علاقائی مقبولیت کی وجہ سے سیاسی مبصرین اس حلقے میں تحریک انصاف کی کامیابی کو یقینی قرار دے رہے تھے اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں اکثریتی پارٹی ہونے کی صورت میں سید جعفر حسین شاہ کو مستقبل کا وزیراعلیٰ بھی دیکھ رہے تھے۔
تاہم سید جعفر حسین شاہ کے اچانک انتقال کی وجہ سے تحریک انصاف کو اس حلقے میں شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ان کے متبادل کے طور پر علاقائی نائب صدر اور سید جعفر حسین شاہ کے دست راست سمجھے جانے والے شیر غازی ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند تھے تاہم پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر اقبال کو ٹکٹ دیدیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اقبال گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر صوبائی وزیر تعمیرات رہ چکے تھے اور گزشتہ ماہ ہی انھوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کی قیادت کے اس فیصلے سے ناراض ہو کر علاقائی نائب صدر شیر غازی نے پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر اقبال کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات جمع کرا دیئے ہیں۔
تحریک انصاف کے لیے صورتحال مزید خراب اس وقت ہوئی جب اچانک انتقال کر جانے والے تحریک انصاف کے امیدوار سید جعفر عباس کے بیٹے سید سہیل عباس نے بھی پارٹی سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا اور ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے۔
سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اگر تحریک انصاف شیر غازی اور سید سہیل عباس کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کے لیے راضی نہ کر سکی تو پارٹی کا ووٹ تین حصوں میں تقسیم ہونے کا امکان ہے جس سے تحریک انصاف کی اس حلقے میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔
ماضی میں اس حلقے سے ڈاکٹر اقبال مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ (ن) نے ذاولفقار علی کو ٹکٹ جاری کیا جو اپنا پہلا الیکشن لڑیں گے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے انتخابی عمل کے پرانے کھلاڑی آفتاب حیدر پر انحصار کیا گیا ہے جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے سے متعدد بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور 2009ء میں اسی حلقے سے کامیاب ہونے کے بعد مشیر برائے جنگلات و معدنیات بھی رہ چکے ہیں۔
اسی حلقے سے مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کیپٹن (ر) شفیع کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے جو اس سے قبل اسلامی تحریک پاکستان سے وابستہ تھے اور 2015ء میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ سے اپوزیشن لیڈر صوبائی اسمبلی بھی نامزد ہوئے۔
آزاد امیدوروں میں سے فنان احمد اور قمر عباس پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم بھی بھرپور انداز سے جاری ہے۔
ضلع گلگت مذہبی حوالے سے انتہائی حساس سجھا جاتا ہے۔ اس حلقے میں تقریباً 55 فیصد ووٹ مذہبی بنیادوں پر، 25 فیصد شخصی اور 20 فیصد سیاسی بنیادوں پر کاسٹ کیا جاتا ہے۔
اس حلقے میں مذہبی اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے اور مذہبی ووٹ کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ مذہبی جماعتوں کی جانب سے تاحال کسی بھی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
یہ حلقہ گلگت شہر کے اہم علاقوں دنیور،سلطان آباد، اوشکھنداس، جگلوٹ، جوتل، حراموش، چھموگڑھ، جلال آباد، بلچھار، بگروٹ، سنیکر، دھتوچھے، ہنوچل اور شودر پر مشتمل ہے۔
اس حلقے کی اہم برادریوں میں کشمیری، شین، رشین، یشکن، گجر، ڈوم اور پٹھان شامل ہیں۔ اس ضلع میں 71 سکول وکالج اور ایک یونیورسٹی "قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی" قائم ہیں اور یہاں گلگت حلقہ 1 اور حلقہ 2 کی طرح تقریباً 95 فیصد شرح خواندگی ہے۔ اس حلقے سے بھی کسی خاتون امیدوار کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے ہیں۔