اسلام آباد: (دنیا نیوز) سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی تو مسئلہ کیا ہے؟ سزا دینے کیلئے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس گلزا احمد نے دوران سماعت کہا کہ سینیٹ الیکشن موجودہ سسٹم کے تحت چلنے کا مطلب ہے کہ ارکان کی خرید وفروخت جاری رہے۔
اٹارنی جنرل کا عدالت کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہنا تھا کہ حکومت کا خیال ہے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کافی ہے۔ خدشہ تھا پورے سینیٹ انتخابات کالعدم نہ ہو جائیں، عدالت سے اس لئے رائے مانگی کہ بعد میں قانونی مسائل نہ بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رکن اسمبلی کے پاس ووٹ عوام اور پارٹی کے امانت ہوتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اٹھارہوں ترمیم میں بہت کچھ تبدیل کیا گیا، سینیٹ کے سیکرٹ بیلٹ کو تبدیل نہیں کیا گیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ اٹارنی جنرل نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہی تو میرا شکوہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتحابات خفیہ کیون ہوں، اس کی سپورٹ میں دلیل کیا ہے؟ ایسی خفیہ چیز کا استحقاق کیسے مانگ سکتا ہے؟
ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اوپن بیلٹ کی مخالفت کس بنیاد پر کریں گے؟ اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد یہی ہے کہ موجودہ سسٹم چلتا رہے۔ موجودہ سسٹم کے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اراکین کی خرید وفروخت جاری رہے۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔