اسلام آباد: (دنیا نیوز) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ بھارت نے کورونا وائرس کی وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں جبر، ظلم وبربریت میں اضافہ کیا۔
تفصیل کے مطابق پاکستان نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران عالمی سطح پر کشیدگی کے خاتمے کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطالبے سے صریح انکار پر بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تنازعات کے خاتمے کے مطالبے پر عملدرآمد تو نہیں کیا لیکن اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں کشمیر میں اپنی جارحیت ، ظلم و بربریت میں اضافہ ضرور کیا ہے۔
انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے خلاف متحد ہونے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کی عالمی سطح پر جنگ بندی کی اپیل کی توثیق پر مبنی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحث کے لیے جمع کرائی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ بھارت نے کورونا وائرس کی وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیری عوام پر لاک ڈائون اور مقبوضہ جموں کشمیر میں جبر، ظلم و بربریت کی ظالمانہ اور وحشیانہ مہم میں تیزی لائی۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش، عالمی ادارے اور خصوصاً عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف ردعمل کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ کورونا وائرس سے بچائو کی ویکسین کی مساوی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اورکورونا وائرس سے انتہائی متاثرہ ترقی پذیر ممالک اور غریب لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہنگامی مالیاتی پروگرام کے انتہائی اہم اقدام پر عملدرآمد بہت ضروری ہے ۔
اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے 5 نکاتی ایکشن پلان کی طرف توجہ دلائی جس میں کورونا ویکسین تک مساوی رسائی، قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ، رعایتی قرضے ، سپیشل ڈرائنگ رائٹس یعنی بین الاقوامی ریزرو اثاثوں کی تخلیق اور ترقی پزیر ممالک سے غیرقانونی مالیاتی بہائو کو روکنا شامل ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بین الاقوامی برادری اس 5نکاتی ایکشن پلان کی توثیق کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں کشمیر کی بات ہے یہ معاملہ سلامتی کونسل کے ایجنڈا میں شامل ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یہ واضح کر چکے ہیں کہ کشیدگی کے خاتمے پر عملدرآمد کے مطالبےمیں کشمیر بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے بھارت نے2020 میں پاکستان کے ساتھ کیے گئے 2003 سیز فائر سمجھوتے کی3 ہزار سے زائد بار خلاف ورزی کی اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ کے دوران 28 شہری جاں بحق اور تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے پرامن احتجاج کے حق کو ظلم و بربریت سے دبایا گیا ، کشمیری سیاسی رہنما ابھی بھی قید میں ہیں ، ہزاروں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور کئی نوجوان لاپتہ ہیں اور کشمیریوں کے گھروں اور جائیدادوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ انہیں اجتماعی سزائیں دی گئیں اور اب بھارت جموں کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرتے ہوئے وہاں آباد ہونے اور اپنے فوجیوں کے لیے ان کی زمین پر قبضہ کرنے اور نام نہاد ترقی کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے 38 لاکھ غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل سرٹیکیٹ جاری کر رہا ہے اور یہی نہیں بھارت نے 5 اگست 2019 یکطرفہ اقدامات کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلم اکثریت والی ریاست کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے سمیت سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی قراردوں پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ ہے جس پر ہم آج سمجھتے ہیں کہ عمدرآمد ہونا چاہیے تو اسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت ، ظلم و بربریت ، بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشنز اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں اور پاکستان کے لیے بھارت کی جانب سے جارحانہ رویئے سےبین الاقوام امن اور سلامتی کو درپیش خطرے پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کشمیری عوام کی خواہشات اوراپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے فعال کردارادا کرے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان کے عوام کے پاس اس وقت ملک میں طویل کشیدگی کے خاتمے کا سنہری موقع ہے لیکن ملک کے اندر اور باہر کچھ ایسے عناصر ہیں جو امن کی خواہشمند نہیں ہیں لہذا افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اسے مذاکرات کے زریعے حل کیا جاناچاہیے کیونکہ افغان امن عمل سے گریز کرنا افغان عوام اور پورے خطے کے لیے ایک المیہ ہو گا۔