لاہور: (دنیا نیوز) وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ نئے سرے سے تفتیش کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو تفتیش نئے سرے سے شروع کرنے کی بدایات دی جارہی ہیں۔ آیئے جانتے ہیں کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کیا ہے ؟ پاکستانی تاریخ کے اس طویل مقدمے میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق 29 سال ہو گئے، بچے جوان ہو گئے، جوان بوڑھے ہو گئے مگر حدیبیہ پیپر ملز کیس کی بیل منڈھے نہیں چڑ ھ سکی، اب ایک بار پھر اس کی تحقیقات ڈول ڈالا گیا ہے۔
سال ہے 1992 کا، اس برس پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا، اسی سال شریف خاندان پر بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے بھاری رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام لگایا گیا ۔
اس مقدمے کو حدیبیہ پیپرز ملز کیس کا نام دیا گیا، شہید بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں رحمٰن ملک نے اِس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا۔
مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے ایک اعترافی بیان کی بنیاد پر شریف فیملی کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ اس اعترافی بیان میں انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔
دسمبر 2000ء میں شریف خاندان جلاوطن ہو گیا، جس کی وجہ سےحدیبیہ ریفرنس اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ 7 برس بعد 2007ء میں نواز شریف کی وطن واپسی پر اُن کے سمدھی اسحٰق ڈار اپنے اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی حدیبیہ پیپر ملز کی تفتیش نئے سرے سے شروع کرنیکی ہدایت
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ستمبر 2011ء میں نیب نے احتساب عدالت راولپنڈی میں مقدمہ کھولنے کی درخواست دائر کی۔ شریف خاندان نے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا۔
2012ء میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے شریف خاندان کی درخواست پر اختلافی فیصلہ دیا۔ دونوں ججوں کے اختلاف پر معاملہ ریفری جج کو بھجوایا گیا۔ مئی 2014ء میں ریفری جج نے حدیبیہ ریفرنس خارج کرنے کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں ۔نیب بورڈ نے اپنے پراسیکیوٹر کی رائے پر فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ستمبر 2014ء میں احتساب عدالت نے بھی حدیبیہ ریفرنس بحال نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
ستمبر 2017 میں نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔
نیب حکام نے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے حقائق کو دیکھے بغیر فیصلے دیے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب کی اپیل کی سماعت کی۔ تینوں ججز نے نیب کی اپیل مسترد کرنے کا متفقہ فیصلہ دیا۔
نیب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی۔ تین رکنی خصوصی بینچ نے حدیبیہ پیپرز ملز نظرثانی درخواست کی سماعت کی۔ بینچ نے نیب پراسیکیوٹر کا فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا کہا نیب پراسیکیوٹر سپریم کورٹ کے فیصلے میں غلطی بتانے میں ناکام رہے جس پر سپریم کورٹ نے نیب کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔