داراشکوہ کیا ایک بدنصیب شہزاہ تھا؟

Published On 01 August,2021 09:13 pm

لاہور: (دنیا نیوز) دارا کی کہانی اُس کے متجسس من کی کہانی ہے جو اُس کی طاقت بھی تھی اور اُس کی تباہی کی وجہ بھی بنی، ایک تحقیق جس پر نظر ڈالنا کیوں ضروری تصور نہیں کیا گیا۔

گو داراشکوہ اپنے والد کا ایک منظور نظر شہزادہ تھا لیکن ایک مملکت کی فلاح وبہبود کا انحصار ایک مضبوط اور انصاف پسند حاکم پر ہے۔ دارا کیلئے، اِس کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے اپنے پڑدادا اکبر جیسے ماضی کے آئین اکبری کے خالق بادشاہوں کی طرح خود کو تیار تو کیا لیکن کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اپنی علیٰحدہ روش اختیار کی اور اُن کے اثرورسوخ کو تسلیم نہیں کیا۔

داراشکوہ کی عوامی شہرت ایک کمزور سپاہی اور نااہل منتظم کی سی تھی۔ شاہ جہاں کو داراشکوہ سے اِتنی محبت تھی کہ وہ اپنے ولی عہد کو فوجی کارروائیوں میں بھیجنے سے ہمیشہ ہچکچاتا رہا اور اُسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دربار میں رکھا۔

اورنگزیب کو فوجی مہمات میں بھیجنے میں شاہ جہاں کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی حالانکہ اُس وقت اورنگزیب کی عمر محض 16 سال رہی ہوگی۔ وہ جنوب میں ایک بڑی فوجی مہم کی قیادت کرتا ہے۔

اِسی طرح مراد بخش کو گجرات بھیجا جاتا ہے اور شاہ شجاع کو بنگال کی طرف روانہ کیا جاتا ہے لیکن اُن کا سب سے عزیز فرزند دربار میں ہی رہتا ہے۔

شاہ جہاں دارا کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا، نتیجہ یہ ہوا کہ اُسے نہ تو جنگ کا تجربہ ہوا اور نہ ہی سیاست کا۔

شاہ جہاں دارا کو اپنا جانشین بنانے کیلئے اِس قدر بے چین تھا کہ اُس نے اپنے دربار میں اِس کیلئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ دارا کو اپنے قریب تخت پر بٹھایا اور اُسے’’ شاہِ بلند اقبال‘‘ کا لقب دیا اور اعلان کیا کہ اُس کے بعد دارا ہی ہندوستان کے تخت پر بیٹھے گا۔

کہتے ہیں کہ داراشکوہ صوفی منش تھا، وہ شہزادے سے زیادہ عالم تھا۔ شہنشاہ شاہ جہاں کے بہت قریب تھا اور اُس کے اگلے شہنشاہ بننے کے تمام امکان موجود تھے، مگر ایسا ہو نہ سکا۔

اِس کی وجہ اُس کی بد مزاجی، غرور اور جنگی مہارت میں کمزوری تھی۔ اُس نے طبیعت بھی اپنے بھائیوں سے کچھ مختلف پائی تھی۔

رفتہ رفتہ دارا وقت کے ساتھ اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ شاہی دربار میں شاہ جہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔

اُس نے شہنشاہ کی طرف سے احکامات جاری کرنا شروع کر دیئے۔ دارا، اورنگزیب سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا، اُس نے ایک نہیں کئی بار اورنگزیب کے خلاف احکامات روانہ کئے۔ اِس سے اورنگزیب اور دارا کے درمیان دشمنی اور رقابت مزید گہری ہوتی گئی۔

اکبر اور جہانگیر جیسے دوسرے مغلوں کی طرح دارا نے ہندو مذہبی فکر کی دھاروں کو تلاش کرنے کا انتخاب کیا۔ دارا مغل شہزادہ ہونے کے ساتھ ایک نامور مصنف تھا جس کی تخلیقات میں تقریباً 50 کا فارسی ترجمہ بھی شامل ہے۔

شاہ جہاں نے دارا کو قادری صوفی حضرت میاں میرؒ سے متعارف کرایا جو دارا کی روحانی تلاش پر اثر انداز ہوئے۔

دارا میاں میرؒ کے ایک بزرگ شاگرد مُلا شاہ کا شاگرد بھی بن گیا۔ تصوف میں دارا کی دلچسپی کو اُس کے والد اور اُس کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم کی شراکت سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس سے یہ ثابت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ دارا مغلوں میں تنہا نہیں تھا جو مادی دنیا کے علاوہ دوسری دنیا میں دلچسپی رکھتا ہو۔

فرق یہ تھا کہ دارا کو زندگی کے روحانی پہلوؤں کے ساتھ گہری رغبت رہی اور اِسی رغبت کے نتیجے میں دارا نے سفینۃ الاولیاء، سکینۃ الاولیاء، رسالہ حق نُما، مکالم بابا لال و شکوہ اور حسنات العارفین (قابلِ ذکر صوفیوں کے اقوال کی تالیف) جیسی شہرہ آفاق کتابوں کی تصانیف فرمائی۔

مجموعی طور پر وہ کتابیں داراشکوہ سے منسوب کی جاتی ہیں جو سبھی فارسی میں لِکھی گئیں۔ دارا شکوہ نے ایک کتاب بعنوان مجمع البحرین (دو سمندروں کی ملنے کی جگہ، سنگم) لِکھی جس میں اس نے اسلام اور ہندو مذہب کے مابین خود ساختہ مماثلت بیان کی۔

مذاہب کے تنوع کو تلاش کرنے کیلئے مجمع البحرین کو ہندو اُن ابتدائی کاموں میں شمار کرتے ہیں جو اسلام اور ہندو مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے درمیان اتحاد کی وکالت کرتے ہیں۔

داراشکوہ رامائن سے خاصا واقف تھا۔ اکبر اور جہانگیر کے توسط سے شاہ جہاں کی شاہی لائبریری میں دارا کا سامنا اُن کتب سے ضرور ہوا تھا۔ 1250ء کی دہائی کے وسط میں دارا کو ہندو مذہب کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ دارا نے ہندو اور اسلامی تصورات کے موازنے پر کام کرتے ہوئے دونوں مذاہب کو برابر سمجھا۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کو دارا کے ان تصورات نے بھی بھائی سے بد ظن کیا۔

داراشکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ مضافات اجمیر میں پیدا ہوا۔ دارا مغل سلطنت کا وارث تھا اور اپنے والد کا چہیتا بیٹا تھا۔ دارا کی کہانی اُس کے متجسس من کی کہانی ہے جو اُس کی طاقت بھی تھی اور اُس کی تباہی کی وجہ بھی بنی۔

شاہی دربار سے ملنے والی پوری رقم کو دارا اپنی مذہبی فکر کی دھن، مذہب اور فلسفہ سے متعلق نصوص کا ترجمہ اور مغل طرز کے فن پارے بنوانے میں خرچ کرتا تھا۔

دارا کی اِسی دھن نے اُسے اپنے وقت کا سب سے زیادہ ٹھگا گیا شخص بنا دیا۔ دارا کی دلچسپی مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں تھی وہ یوگیوں اور الگ الگ مذاہب کے رہنماؤں سے گھرا رہتا تھا۔

شروعات میں اُس نے اپنشدوں کا ترجمہ شروع کروایا اُس وقت مغلیہ سلطنت کے وارث کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کر سکتا تھا کسی کے پاس اِس طرح کے وسائل نہیں تھے۔

اُس نے سنسکرت سیکھنے کی کوشش کی لیکن ایک اور کہانی بھی ہے جو دارا کی کہانی کیساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دارا کے بھائی اورنگزیب عالمگیر کی کہانی جو اسلام کے ساتھ سختی سے جڑا ہوا تھا۔

دونوں کی اِسی مقابلہ آرائی کے نتیجے نے شاید ہندوستان کی تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا۔ دارا کو ہندو مذہب سے بہت رغبت ہو گئی۔ دارا اِس بات کا قائل ہو گیا کہ مذاہب خالق کی تلاش میں کیسے توحید پسند سچائی میں ملتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ندیاں سمندر میں ملتی ہیں۔ دارا کا ماننا تھا کہ ہندو وید فلسفہ کے مطالعے سے اسلام کے پوشیدہ راز اُس کے سامنے آ رہے ہیں جس سے اُسے اتنا خاص علم حاصل ہوگا کہ وہ بغیر کسی چیلنج کے تخت پر جا بیٹھے گا۔

دارا نے مغل تاج کی اپنی راہ کو کچھ ایسے دیکھا کہ وہ ایسا شخص ہے جو تمام مذہبی راز ظاہر کر دے گا۔ وہ انتہائی خود اعتمادی سے بھرا ہوا تھا، وہ خود کو ہر کام میں قابل مانتا تھا اور اُسے لگتا تھا کہ اُسے صلاح کاروں کی ضرورت نہیں جو صلاح و مشورے دیتے اُن سے وہ نفرت کرتا۔

اِسی لئے اُس کے دوست اُسے ضروری باتیں بھی نہیں بتاتے تھے۔ اُسے لگتا کہ سب اُس سے محبت کرتے ہیں اور قسمت آخر اُسی کا ساتھ دے گی۔ وہ مذہبی مماثلت کے حوالے سے زیادہ فکر مند رہتا اور انتظامیہ کے متعلق کم۔ اِس درمیان اورنگزیب خود کو مضبوط کر رہا تھا۔ وہ اپنے رسوخ کا دائرہ بڑھا رہا تھا شاہی تخت پر قبضہ کی تیاری کر رہا تھا۔ اورنگزیب نے اپنی شخصیت کو ایک جنگجو، ایک منتظم کے طور پر ڈھالا۔

اورنگزیب عالمگیر کو ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو لوگوں کی پرواہ کرتا ہے، مذہبی عقیدت رکھتا ہے، ریاستوں پر حملوں میں ملی رقم کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرتا ہے اور یہ حیرانی کی بات نہیں کہ جب جانشین کی لڑائی ہوئی تو اُن میں سے کئی لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ جب 1657ء میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو شاہی تخت ایک طرح سے خالی ہو گیا۔اس سے پہلے کہ کوئی اور قوت اقتدار کیلئے حملہ آور ہوتی اورنگزیب نے اِس موقع پر غفلت نہیں کی ۔ وہ نہ صرف اپنے بھائی کو فوجی امور میں نادان مانتا تھا بلکہ اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ دوسرے مذاہب کو امن کے مذہب اسلام پر ترجیح دینے لگا ہے اور حکومت کرنے کے لائق نہیں۔ اب دونوں بھائیوں کی ٹکر میدان جنگ میں ہونی تھی۔

جون 1659ء میں دونوں افواج آگرہ کے نزدیک ساموگڑھ میں آمنے سامنے تھیں۔ شہزادہ مراد بخش نے اپنے سب سے بڑے بھائی دارا شکوہ کو شکست دینے کیلئے منجھلے بھائی اورنگزیب سے ہاتھ ملا لیا۔ جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب دارا شکوہ نے اپنی توپوں کو اورنگزیب کی فوج کی طرف فائرنگ شروع کرنے کا حکم دیا۔ آخر کار دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف زبردست گولہ باری کا آغاز کرنا شروع کر دیا۔ بارش کے باعث گولہ باری ملتوی کرنا پڑی، جنگ بے حد مختصر رہی۔ بعض مؤرخین کے مطابق اورنگزیب ایک راجپوت فوجی کے وار سے مرتے مرتے بچا لیکن جلد ہی سنبھل گیا۔ وہیں دارا کے ہودے کو ایک راکٹ لگا اور وہ تیزی سے ہاتھی سے اُتر گیا۔ اُس کے فوجیوں نے جلد ہی اُس کے ڈر کو سمجھ لیا۔ لڑائی ختم ہو چکی تھی۔

محض 3 گھنٹے کی لڑائی میں دارا کے 10 ہزار فوجی ہلاک ہو گئے جو بچ گئے اُنہوں نے دارا کا ساتھ چھوڑ دیا۔ دارا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ دارا کے ریشمی کپڑوں کی جگہ بے کار کُرتے اور سستے جوتوں نے لے لی تھی۔

آخر میں اُسے ایک افغان سردار ملک جیون نے دھوکہ دے دیا۔ ملک جیون نے اُس کی حفاظت کا وعدہ کیا اور پھر اورنگزیب کو سونپ دیا۔ اُس کے بعد پھٹے حال دارا کا ایک چھوٹے سے، معمولی سے ہاتھی پر جلوس نکلا۔ بے حد اُداس نظارہ تھا جس نے بھی اُسے دیکھا اُسے ترس آ گیا کیونکہ اتنے کم وقت میں اتنا طاقتور، اتنا امیر اور اتنا مشہور شہزادہ اتنی بری حالت میں پہنچ چکا تھا۔ دورِ جدید کے صفِ اول کے ناول نگار قاضی عبدالستار نے اپنے ایک ناول میں دارا کے کردار کو حق پرست، مشترکہ تہذیب کا ترجمان، اکبرِ اعظم کا جانشین اور شعر و ادب کے معمار کے طور پر پیش کیا ہے۔

بقول قاضی صاحب، ’’ساموگڑھ کے سینے میں وہ میزان نصب ہوئی جس کے ایک پلڑے میں روایت تھی اور دوسرے میں دل، ایک طرف سیاست تھی دوسری طرف محبت، ایک طرف فلسفہ حکمت تو دوسری طرف شعر و ادب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف تلوار تھی اور دوسری طرف قلم۔‘‘

سامو گڑھ کی شکست کے بعد جب دارا کو اِس طرح گھمایا جا رہا تھا تو اُس نے ایک بھکاری کی آواز سنی۔ بھکاری اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، ’’اے دارا، ایک زمانے میں تم اِس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ جب تم اِس سڑک سے گزرتے تھے تو مجھے کچھ نہ کچھ دیتے جاتے تھے۔ آج تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘

یہ سن کر دارا نے اپنے کندھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُس پر رکھی ہوئی شال اُٹھا کر اُس بھکاری کی طرف پھینک دیا۔ اِس واقعہ کے چشم دیدوں نے یہ کہانی شہنشاہ اورنگزیب تک پہنچائی۔ پریڈ ختم ہوتے ہی دارا اور اُس کے بیٹے سِپہر کو خضر آباد کے جیلروں کے حوالے کر دیا گیا۔

اورنگزیب کے دربار میں ہوئے ’’دکھاؤٹی مقدمہ‘‘ میں درباریوں نے تقریباً ایک آواز ہو کر دارا کو سزائے موت کی سفارش کر دی۔ اور پھر 9 ستمبر 1659ء کو اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اُس کا سر کاٹ کر اورنگزیب کو پیش کیا گیا۔ اُس کے جسد خاکی کو ہمایوں کے مقبرے کے اُسی میدان میں دفن کر دیا گیا۔

مغلوں کے معیار کے مطابق دارا ایک ناکام شخص تھا، اُسے’’ بدنصیب ‘‘بھی کہا گیا اُن شہزادوں میں سے ایک جو جانشینی کی لڑائی میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ دارا نے اپنشدوں اور دوسری کتابوں کے جو تراجم کروائے اُن سے یورپ کے سکالرز کی نظر اُن پر پڑی۔ دارا کی موت کے بعد اُسکے کام کو ہندو مذہب کے پیروکاروں نے خوب سراہا دارا شکوہ کے حوالے سے تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں، تاہم اِس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک صاحبِ علم چشم و چراغ تھا۔ غیر مسلم خصوصاًہندو دانشوروں کے مطابق دارا برصغیر میں مذہب کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی منافرت اور تنگ نظری کو ختم کرنے کا خواہاں تھا۔ دارا شکوہ کی حیثیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔

داراشکوہ کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے دارا کے فرانسیسی ذاتی معالج فرانسوا برنیئر لکھتے ہیں، ’’اگرچہ دارا مذہبی اُمور میں وسیع الخیال تھا، فلسفہ وحدت الوجود کا معتقد تھا لیکن متلون مزاج، مغرور، چڑچڑا اور بے عمل تھا، وہ خوشامد پسند تھا، دربار کی زندگی اور شہنشاہ شاہ جہاں کی بے پناہ محبت نے اُس کو برباد کر کے رکھ دیا اور تسخیر قلوب کے فن سے بیگانہ کردیا، اِس لئے مزاج و ترتیب کے لحاظ سے وہ اِس کا اہل نہیں تھا کہ کسی سخت آزمائش کا مقابلہ کر سکے۔‘‘رہی یہ بات کہ اورنگزیب ہندوئوں سے نفرت کرتا تھا بالکل غلط ہے آج کے ہندوستان کے ہندوتوا کے پیروکاروں خصوصا ً مودی رجیم نے اسے غلط رنگ دیا کہ اورنگزیب ہندوئوں سے نفرت کرتا تھا۔

تحریر: محمد اسلام گھٹھی (خوشاب)
 

Advertisement