لاہور:(دنیا نیوز)پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) سے متعلق بل تو منظور کروا لیا گیا لیکن کیا آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن ہو پائے گا، اس سے متعلق اب بھی کئی خدشات اور سوالات باقی ہیں۔
دنیا کے کن ممالک میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ہو رہا ، کن ممالک میں پائلٹ پراجیکٹس چل رہے ہیں اور ایسے کون سے ممالک ہیں جو ای وی ایم کے استعمال کو رد کر چکے ہیں؟ جبکہ اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو حکومت کی طرف سے دھاندلی کی منصوبہ بندی قرار دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے 31 ممالک ایسے ہیں جہاں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے یا ہوچکا ہے،ان میں بھارت ، برازیل ،بیلجئیم ، امریکا ، اسپین ، کینیڈا ، سوئٹزر لینڈ ، بنگلہ دیش،، آسٹریلیا ، فرانس، ایران ، عراق ، جنوبی کوریا ، میکسیکو ، نیوزی لینڈ ،بھوٹان اور نائیجیریاسمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔
فن لینڈ میں 2008 میں ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کیا گیا تاہم 17-2016میں انٹر نیٹ ووٹنگ کے خلاف خطرات بڑھنے پر اس کو مسترد کر دیا گیا،14 ملکوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ 11 ممالک کے کچھ حصوں میں اس مشین کا تجربہ کیا جارہا ہے،5 ممالک میں اس مشین کے پائلٹ منصوبوں پر کام جاری ہے، 8ممالک میں پائلٹ پراجیکٹس کے بعد ای وی ایم کو استعمال نہیں کیا جارہا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جرمنی،ہالینڈ،اٹلی،فرانس،آئرلینڈ،فن لینڈ،قازقستان اور ناروے میں ای وی ایم کا استعمال روک دیا گیا،بھارت میں تجرباتی طور پر1998 اور قومی سطح پر2004سے ای وی ایم کا استعمال جاری ہے،بھارتی الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار ووٹنگ سسٹم کو منتخب حلقوں میں استعمال کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام اور مشینوں میں بہتری لائی گئی جبکہ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات میں اپوزیشن نے مودی سرکار پر بڑے پیمانے پر الیکٹرانک مشینوں میں فراڈ کے الزامات لگائے۔
پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے مطابق پولنگ سٹیشنز کی کل تعداد پچاسی ہزار تین سو سات تھی جبکہ ملک بھر میں دو لاکھ چوالیس ہزار نو سو انتیس پولنگ بوتھ قائم کئے گئے تھے،آئندہ عام انتخابات میں پولنگ اسٹیشنز کی تعداد تقریباً ایک لاکھ اور پولنگ بوتھ کی تعداد تقریباًتین لاکھ سے زائد ہونے کا امکان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک لاکھ پولنگ بوتھ کیلئے کتنی الیکٹرانک مشینیں درکار ہوں گی؟ اور ایک مشین پر کتنی لاگت آئے گی؟
ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ الیکشن کیلئے تقریباً 30 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے چاروں یونٹ 30،30 لاکھ کی تعداد میں تیار کرنا ہوں گے۔
رپورٹ کےمطابق ای وی ایم کو مقامی یا انٹرنیشنل وینڈر یا پھر وزارت سائنس سے خریدنے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الیکٹرانکس بڑے پیمانےپر ای وی ایم مشینوں کی تیاری کی صلاحیت رکھتا ہے،الیکٹرانک مشینوں کے حصول کے لئے کل کتنا وقت درکار ہو گا اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ، اس سے متعلق وینڈرز یامینوفیکچرر ہی ڈلیوری کا مکمل پلان بتا سکتےہیں۔
دوسری طرف ای وی ایم پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات بھی سامنے آ چکے ہیں،7 ستمبر2021 کو الیکشن کمیشن نے ای وی ایم پر 37 اعتراضات اٹھائے تھے،الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے کم از کم خرچہ 150 ارب روپے آئے گا،کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی،مشین کی منتقلی اور حفاظت پر سوالات اٹھیں گے، اس مشین کو باآسانی ٹیمپر اور سافٹ ویئر بدلا جا سکتا ہے،ووٹرز کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی رکاوٹ بنے گی۔
ماہرین کے مطابق الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات اپنی جگہ لیکن جرمنی ،فرانس سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روک چکے ہیں، بھارت میں بھی ای وی ایم پر ہونے والے انتخابات الزامات کی زد میں رہے۔
دوسری طرف پاکستان میں الیکشن کمیشن بھی ای وی ایم پر اعتراضات اٹھا چکا ہے،بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروکیورمنٹ بھی ایک مشکل کام ہے جبکہ اتنی قلیل مدت میں ای وی ایم کا استعمال بھی ممکن نظر نہیں آ رہا،ایسے میں آئندہ انتخابات ای وی ایم پر ہوں گے یا نہیں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔