لاہور: (سلمان غنی) پاکستان کی سیاست میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سرد جنگ یا محاز آرائی کی سیاست چل رہی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سیاسی طور پر فتح کرکے اپنی جیت کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی ہدف حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی دعویٰ ہے کہ ہم نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے تمام اہداف مکمل کرلیے ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے ہم خیال گروپ سمیت جہانگیر ترین گروپ اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی ہوم ورک مکمل کرلیا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے اور حکومت کے خاتمہ سمیت 38نکات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا ہے ۔ان کے بقول حکومت کو گرانا ان کا ہدف ہے۔اگرچہ یہ متحدہ اپوزیشن کا لانگ مارچ نہیں لیکن پی ڈی ایم نے بھی اس مارچ کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی جماعتوں اوران کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں نے بھی سیاسی ماحول کو گرمادیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن واقعی حکومت کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے او راس نے اپنے سیاسی پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے تو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر پارلیمنٹ کو توڑ کر نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرے او ریہی مطالبہ نواز شریف کا بھی ہے مگر پیپلزپارٹی فوری انتخابات کی بجائے پس پردہ اس نظام کو چلانا چاہتی ہے۔
یہی وہ تضاد ہے جو ہمیں اپوزیشن کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔یہ واضح نہیں کہ وہ کس طرح سے سیاسی ماحول کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک او رمسئلہ پنجاب میں تبدیلی کا ہے اورایسے لگتا ہے کہ پنجاب میں بھی تبدیلی کے حوالے سے ابہام ہے۔ مسلم لیگ (ن) چوہدری برادران کو بڑا کردار دینے کے لیے تیار نہیں اور شاہد خاقان عباسی کے بقول چوہدری برادران ان کی ترجیح میں شامل نہیں۔ کیونکہ زرداری او رمولانا فضل الرحمن نے یہ تاثر دیا تھا کہ ہم پنجاب میں تبدیلی کی صورت میں وزرات اعلیٰ چوہدری برادران کو دے سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک عدم اعتماد کے اس کھیل سے عملی طور پر کیا برآمد ہوتا ہے۔یہ بات بھی یقینی ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنا ہے تو یہ کام بغیر ہوم ورک کے نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے اپوزیشن جماعتوں کی مشکلات اور زیادہ بڑھ جائیں گی۔
دوسری طرف حکومت نے بھی اپنے اوپر اپوزیشن جماعتوں کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے عوام کو ایک بڑا معاشی پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقو ل پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے کی کمی کی جارہی ہے۔ یہ کمی آنے والے نئے بجٹ تک برقرار رہے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا اس معاشی پیکج پر یہ تبصرہ ہے کہ یہ سب کچھ اپوزیشن جماعتوں کے ڈر اور خوف سمیت ان کی تحریک کو کمزور کرنے کا کھیل ہے۔ حکومت اس معاشی ریلیف کو ایک بڑی کامیابی اور اپوزیشن اسے حکومتی چال کے ساتھ جو ڑ کر حکومت پر سخت تنقید کررہی ہے۔یقینی طور پر اس معاشی پیکج کے پیچھے حکومت کی سیاسی حکمت عملی ہی کارفرما ہے۔کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ عوام واقعی حکومتی پالیسیوں سمیت مہنگائی سے تنگ ہیں اور اگر ان کو فوری طور پر ریلیف نہیں دیا گیا تو اس کا نقصان حکومتی ساکھ پر پڑے گا۔ لیکن فوری طورپر اس کا مقصد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے یہ حکومتی جوابی حملہ ہے۔
اپوزیشن جماعتیں اس پیکج پر جہاں تنقید کررہی ہیں وہیں ان کے بقول ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے تو حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ کیونکہ حکومت کو انداز ہ ہے کہ اس کی سیاسی صفوں میں کافی مسائل ہیں اور کئی ارکان اسمبلی یا توناراض ہیں یا پس پردہ اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں ہیں۔کہا جارہا ہے کہ حکمران جماعت کے بہت سے ارکان اسمبلی کا مسلم لیگ (ن) سے رابطہ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ نئے ہونے والے انتخابات میں ان کو مسلم لیگ( ن) کا پارٹی ٹکٹ ملے گا تو ایسی صورت میں وہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہونگے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی ٹیم کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ بھی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی تقسیم کو یقینی بنائیں اور ان میں باغی گروپ بنے تو اس کا سیاسی فائدہ حکومتی جماعت کو ہی ہو گا۔ بہرحا ل اس وقت حکومت اوراپوزیشن دونوں ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لینا چاہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ طاقت کی اس لڑائی میں قومی سیاست کو آگے لے کر جانے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔اگر یہ لڑائی ایسے ہی جاری رہتی ہے تو اس سے ملک اورقومی سیاسی کو فائدہ کم او رنقصان زیادہ ہوگا۔ اصل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کو اس وقت ملک میں جو بڑے بڑے مسائل یا چیلنجز ہیں ان پر باہمی اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہو رہااوریہی ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے۔