گلوبل وارمنگ: پاکستان اور عالمی طاقتوں کا کردار

Published On 23 May,2022 08:47 am

لاہور(ڈاکٹر سہیل اختر) آج کل کے گرم ماحول میں گلوبل وارمنگ کا لفظ بہت سننے کو مل رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا آسان مطلب زمین کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہونا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ کیوں رہا ہے؟ وہ کون سے عوامل اورعناصر ہیں جو گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہے ہیں؟

ہماری زمین کے ماحول میں کچھ گیسوں کی مقدار میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ ان گیسوں کی زیادتی کی وجہ سے سورج کی کرنیں زمین سے ٹکرانے کے بعد خلا میں نہیں جاتیں۔ یہ گیسز سورج کی تپش کو اپنے اندر ٹریپ کرلیتی ہے۔ اس کی وجہ سے زمین آہستہ آہستہ گرم ہوتی ہے۔ ان گیسوں میں خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کلوروفلورو کاربن شامل ہیں۔ یہ گیسز مختلف عوامل کے نتیجہ میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں اور زمین کو گرم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ زمین کی آب و ہوا میں ان گیسوں کے اضافے کی ذمہ داری کافی حد تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن جلانے، درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا روک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث رہا ہے جو نسل انسانی کیلئے انتہائی بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح ائیرکنڈیشنڈ اور ریفریجریٹر سے خارج ہونے والی کلوروفلورو کاربن اوزون کی سطح کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ آکسیجن کے تین ایٹموں سے ملکر بننے والی یہ گیس ہماری بیرونی سطح سے 12 سے 48 کلومیٹر دور تک اکٹھی ہورہی ہے۔

اوزون کی تہہ ہماری زمین کو سورج کی مضر شعاعوں سے بچاتی ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے اس کی تہہ میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔ ان شعاعوں سے جلدی امراض اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ متھین گیس کھیتوں سے پیدا ہوتی ہے خصوصاً جب چاول کی کاشت کی جاتی ہے۔ یہ گیس بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہے۔

2014ء میں سائنسدانوں نے ’’کاربن آبزرویٹری II‘‘ کو خلا میں لانچ کیا تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ زمین کے ماحول میں گرین ہاؤس گیسز کتنی موجود ہیں۔ اس سیٹلائٹ نے پانچ سال تک تمام گیسز پر تحقیق کی اور بتایا کہ کب ان گیسز کے سگنیچر کم ہوئے اور کب زیادہ ہوئے۔ اس مقصد کیلئے اس سٹیلائٹ پر سپکٹومیٹر لگائے گئے تھے۔ اس نے زمین پر کاربن کا جو نقشہ بھیجا اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ اس کی کنسٹرکشن اس وقت 405 پی پی ایم تھی اور اسے اگر آج دیکھیں تو اس کی کنسٹرکشن اس وقت 412 پی پی ایم ہے۔ پنڈیمک کے دوران 2020ء میں فروری سے لیکر مئی تک ایسا ٹائم آیا تھا جب زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 3 سے 13 فیصد تک کم ہوگئی تھی اور بہت عرصہ بعد پہلی مرتبہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے گراف ایک دم نیچے آگئے تھے کیونکہ اس وقت نہ تو فیکٹریاں چل رہی تھیں اور نہ ہی گاڑیاں اور دیگر ایسی چیزیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھانے کا موجب بنتی ہیں۔

اس کرہ ارض پر 20ویں صدی میں درجہ حرارت میں 0.6 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور بعض حصوں میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ان میں موسم گرما میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان چین اور بھارت کا ایک ہمسایہ ملک ہے جن کا حصہ ان گیسوںکے اخراج میں بالترتیب دنیا میں پہلا اور تیسرا ہے۔ جس کے باعث پاکستان کی فضا میں بھی ان گیسز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔

ایک سروے کے مطابق آنے والے برسوں میں دنیا شدید گرمی سے متاثر ہوگی اور زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ جس کی وجہ سے بے شمار اموات واقع ہوں گے۔ ایران، عراق، سعودی عرب اور ابوظہبی کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک میں اس قدرزیادہ گرمی پڑے گی کہ درجہ حرارت 74 سے 78 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔

گزشتہ برس امریکہ میں 40 ممالک کے سربراہان مملکت نے گلوبل وارمنگ کے حوالے سے شرکت کی جس میں عالمی موسمیاتی پالیسی بنائی گئی۔ پالیسی کا بنیادی مقصد 2050ء تک گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنا اور ابتدائی مرحلے کے طور پر 2030ء تک کاربن کے اخراج میں 50 فیصد کمی لانا ہے۔ جوبائیڈن حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پیش کی ہے جس میں قابل تجدید توانائی، برقی گاڑیوں کا استعمال اور کوئلے پر انحصار کا خاتمہ اور شمسی اور آبی توانائی کو امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنانا شامل ہے۔

بنگلہ دیش اس وقت کلائمنٹ والفرائلیٹی فورم کے 48 ملکی گروپ کی قیادت کررہا ہے۔ اس گروپ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب بیس کروڑ بنتی ہے اور یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں 5 فیصد کے حصہ دار ہیں۔ چین فوسل فیول کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک ہے۔

پاکستان کو بھی اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوشش کرنا ہوگی۔ پاکستان کو عالمی ماحولیاتی ایجنڈے کا حصہ بننا ہوگا۔ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کرنے کیلئے درج ذیل باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ (1) اپنے مقصد کو عالمی مقصد سے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ (2) عالمی تپش کو 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے اور خود کو کاربن نیوٹرل اور 2030ء تک تقریباً زیرو کاربن اخراج کرنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرنا ہوگی۔ (3) پاکستان کے اعلانات قابل بھروسہ ہونے چاہئیں اور انہیں منصوبہ بندی اور مناسب اقدامات کے تحت وزن دار بنایا جائے۔ان اقدامات کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ماحول سے متعلق عالمی میدان میں ماحولیاتی تبدیلی ترقیاتی منصوبہ بندی پر عمل کا عزم ظاہر کرنا ہوگا۔ جدید توانائی کے ذریعے اپنی مسابقت بڑھانا ہوگی۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گلوبل وارمنگ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ حکومت پاکستان نے ماحولیات کی وزارت بنائی ہے اور صوبائی سطح پر بھی ادارے موجود ہیں، انہیں مؤثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔