لاہور : (عبدالحفیظ ظفر) کچھ لوگوں کو قدرت نے بہت سی خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں جن میں ایک نام ریاض الرحمان ساغرکا ہے۔
یکم دسمبر1941ء کو بٹھنڈا (بھارت) میں پیدا ہونے والے ریاض الرحمان ساغر شاعر بھی تھے اور فلمی گیت نگار بھی۔ انہوں نے صحافت بھی کی اور کالم نویسی میں بھی نام کمایا۔ اس کے علاوہ ساغر صاحب نے مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے 2000سے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔ اسی طرح انہوں نے75 فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے۔ ریاض الرحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی کتاب ’’میں نے جو گیت لکھے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس طرح ان کی نثری تصنیفات میں’’وہ بھی کیا دن تھے(خود نوشت)، کیمرہ، قلم اور دنیا(سات ملکوں کے سفر نامے)، لاہور تا ممبئی براستہ دہلی(سفر نامہ)، سرکاری مہمان خانہ(جیل میں بیتے لمحات پرمبنی کتاب)‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کی بھی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں ’’چاند سُر ستارے، آنگن آنگن تارے(اس کتاب میں شائع ہونے والی بچوں کی نظمیں سرکاری ٹی وی پر پیش کی گئیں)، سورج کب نکلے گا‘‘(نامکمل خود نوشت) شامل ہیں۔ ساغر صاحب نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ خاص طور پر ان کی سیاسی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔
ان سب حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساغر صاحب نے بہت کام کیا اور وہ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ گیت نگاری کے میدان میں اپنے نام کا سکہ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ ساغر صاحب نے سب سے پہلے ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ میں کام کیا۔ لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں وہ لگن سے کام نہیں کر سکتے۔ وہ لاہور کے ایک اردو روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے پہلے انٹرمیڈیٹ کیا اور پھر پنجابی فاضل میں بی اے کیا۔ انہوں نے لاہور کے ایک روزنامے میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور 1996ء تک اسی ادارے کے ہفت روزہ جریدے میں بھی کام کیا۔ انہوں نے کالم نویسی کے فن کو ایک نیا روپ دیا۔ وہ پہلے کالم نویس تھے جنہوں نے نظم یا گیت کی شکل میں کالم لکھے۔ 1996ء میں ان کا پہلا کالم’’ عرض کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کے آخری کالم کا عنوان تھا ’’صبح کا ستارہ چھپ گیا ہے‘‘۔
انہوں نے اپنی ایک نظم ’’فلم وثقافت کل اور آج‘‘میں پاکستا ن فلم انڈسڑی ( بشمول ٹی وی اور ریڈیو)کے عروج وزوال کی پوری داستان بیان کی ہے۔ماضی کے تمام قابلِ ذکر فنکاروں ، فلمی شاعروں،ادیبوں ،موسیقاروں ،گلوکاروں اورہدایت کاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد اور فرداً فرداً سب کی خوبیوں کا اعتراف کرنے کے بعد وہ اس نظم کے آخر میں کسی لگی لپٹی کے بغیرکہتے ہیں۔
ریاض الرحمان ساغر نے 1958ء میں پہلا فلمی گیت لکھا لیکن جس فلم کیلئے لکھا وہ ریلیز نہ ہو سکی۔ گیتوں کے حوالے سے ان کی جو پہلی فلم ریلیز ہوئی، اس کا نام تھا’’عالیہ‘‘ لیکن انہیں اصل شہرت فلم ’’شریک حیات‘‘ کے اس گیت سے ملی ’’مرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ’’عشق خدا‘‘ کیلئے بھی گیت لکھے جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ انہوں نے جن مشہورفلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے ان میں ’’شمع، نوکر، سسرال، شبانہ، نذرانہ، عورت ایک پہیلی، آواز، بھروسہ، ترانہ اور مور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے شباب کیرانوی کے ساتھ بہت کام کیا۔ وہ اپنے آپ کو قتیل شفائی کا شاگرد کہتے تھے۔ ریاض الرحمان ساغر کو کئی ایوارڈ دیئے گئے جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، کلچرل گریجویٹ ایوارڈ ، نگار ایوارڈ اور بولان ایوارڈ شامل ہیں۔ ہم ذیل میں ساغر صاحب کے کچھ مشہور فلمی نغمات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
٭… چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں(سماج)
٭…آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)
٭… دیکھا جو چہرہ تیرا(گھونگھٹ)
٭… کو بھی تو لفٹ کرا دے( عدنان سمیع)
٭… کل شب دیکھا(مجھے چاند چاہیے)
٭… میری وفا، میرے وعدے پہ(بے قرار)
٭… دل لگی میں ایسی دل کو لگی(دل لگی)
٭… ذرا ڈھولکی بجائو گوریو(سرگم)
٭… ہے، یہی تو پیار ہے (سرگم)
٭… دی ہم نے ( نیک پروین)
یکم جون 2013 کو ریاض الرحمان ساغر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی ادبی خدمات کون فراموش کر سکتا ہے؟ یقینا کوئی نہیں۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ "دنیا" سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں۔