اسلام آباد: (دنیا نیوز) 14جون کو شروع ہونے والی مون سون بارشوں نے ملکی تاریخ کی بدترین تباہی مچائی ہے۔ بارشوں نے بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے تو دوسری طرف متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیوں کے لیے فوج بھیجے کی منظوری دیدی گئی۔
وفاقی کابینہ کی طرف سے سرکولیشن سمری کے ذریعے فوج متاثرہ اضلاع میں بھیجنے کی منظوری دی گئی۔ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج تعینات کرنے کی سمری کی منظوری دی گئی۔خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے متاثرہ اضلاع میں فوج بھیجی جائے گی، تمام صوبائی حکومتوں کے محکمہ داخلہ کو آگاہ کردیا گیا۔
دوسری طرف وزارت داخلہ نے شدید بارشوں اور سیلاب کی ہنگامی صورتحال کے پیش نظرسویلین حکومت کی مدد کیلئے چاروں صوبوں میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دےدی۔
وزیر داخلہ
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سویلین حکومت کی ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشنز میں مدد کیلئے پاک افواج کی تعیناتی کی جارہی ہے۔ پاک افواج کو چاروں صوبوں کے سیلاب سے آفت زدہ علاقوں میں تعینات کیا جارہا ہے-
انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے ڈیرہ غازی خان ضلع میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں پاک افواج تعینات کی ریکوزیشن کی ہے، حکومت خیبر پختونخوا نے ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات کرنے کی ریکوزیشن کی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت بلوچستان نےنصیر آباد،جھل مگسی، صحبت پور، جعفر آباد اورلسبیلہ اضلاع میں فوج کی تعیناتی کیلئے ریکوزیشن کی ہے۔ سندھ حکومت نے سیلابی علاقوں میں صوبائی حکومت کی مدد کیلئے فوج تعینات کرنے کیلئے ریکوزیشن وزارت داخلہ بھیجی۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ میں قائم کنٹرول روم سے سیلاب کی صورتحال کو مسلسل مانیٹر کیا جارہاہے۔سیلاب سے متاثرہ لوگوں کسی صورت اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔انسانی زندگیاں بچانا اولین ترجیح ہے۔ وفاقی حکومت تمام صوبوں کو ضروری انسانی اور مالی وسائل فراہم کر رہی ہے۔
امدادی کارروائیاں جاری
دوسری طرف آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیلاب سے متاثر علاقوں میں پاک فوج کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
بیان کے مطابق پاک فوج صوبوں میں ریلیف کی کوششوں میں تعاون کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ ہیڈکوارٹرز میں آرمی فلڈ ریلیف سینٹر قائم کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق فیلڈ فارمیشنز اور متعلقہ سرکاری محکمے سیلاب کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فارمیشنز سول انتظامیہ کو مسلسل مطلوبہ مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ملک بھر میں اب تک ہزاروں فوجیوں کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے جو ریلیف آپریشنز میں سرگرم ہیں، ان کے پاس 250 گاڑیوں، 50 کشتیاں موجود ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق وقتاً فوقتاً ایک سے زیادہ ہیلی کاپٹروں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے، لسبیلہ، اُتھل، آواران، غذر، جنوبی پنجاب، راجن پور اور ڈی جی خان کے کوہ سلیمان کے دور دراز علاقوں میں امدادی اشیاء کی تقسیم میں مدد کے علاوہ بڑی تعداد میں پھنسے ہوئے افراد کو بھی نکال جا رہا ہے۔
بیان کے مطابق لسبیلہ، جھل مگسی، راجن پور، ڈی جی خان، دادو اور غذر کے آفت زدہ علاقوں سے 40000 سے زائد شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ سندھ، بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کے 3 دن کے خشک راشن (1476 x ٹن) عطیہ کیا گیا جسے تقسیم کر دیا گیا۔
متعلقہ فارمیشنوں کے ذریعے پنجاب کے پی اور گلگت بلتستان، سندھ کے لیے 633 ٹن خشک راشن اور 492 ٹن خصوصی طور پر بلوچستان کے سیلاب متاثرین میں تقسیم کیا گیا۔ اس دوران آرمی ریلیف فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ عطیات اکٹھا کر کے مستحق افراد میں تقسیم کیا جا سکے۔
آرمی فارمیشنز نے متاثرہ علاقوں میں 60 ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں اور 11000 افراد کو طبی سہولیات دی ہیں، 14000 نان فوڈ آئٹمز اور 73000 فوڈ پیکٹ تقسیم کیے ہیں۔
سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 900 ارب سے زائد، فصلوں کو شدید نقصان
ابتدائی اندازوں کے مطابق سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 9سو ارب روپے سے زائد ہے۔ رواں سیزن میں ملک میں تین گنا زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں ۔ گندم کی بوائی میں تاخیر، کپاس اور چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔
جے ایس بروکریج کی ریسرچ کے مطابق رواں سیزن میں ملک بھر میں 3 گنا زیادہ سے پیدا ہونے والے سیلاب نے زندگی، فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے نقصانات کو صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لیکن نقصانات 9سو ارب روپے سے زائد ہونگے جو سال 11-2010کے سیلاب سے زیادہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث رواں سیزن میں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونگی۔ زمین کو سوکھنے میں 2 سے تین ماہ لگیں گے جس کے باعث گندم کی بوائی میں تاخیر ہوگی۔ گندم کی بوائی میں تاخیر کے باعث گندم کی فصل متاثر ہوگی اورنتجیجے میں 1ارب 70کروڑ ڈالر تک کی گندم درآمد کرنا پڑیگی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالرز کے چاول برآمد کیے تھے جو اس سال نہیں ہوپائینگے۔ کپاس کی درآمد کرنا پڑسکتی ہے۔ مویشیوں کی اموات کے باعث گوشت کی قیمت اور فصلوں اور باغات تباہ ہونے سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کے باعث ملک میں مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ جائیگی۔ جبکہ عوامی منصوبوں پر خرچ بڑھ جانے کے باعث حکومت مالیاتی خسارے کا ہدف حاصل نہیں کرپائے گی ۔
شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث ریلوے آپریشن معطل
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ موسلا دھار بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث ملک کے بیشتر شہروں میں ریلوے آپریشن معطل ہو گیا ہے۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے ریلوے کو 10 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ایم ایل ون کا کچھ حصہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ایم ایل ون پر مسافر گاڑی کا آپریشن جزوی طور پر معطل کررہے ہیں۔ سیلابی صورتحال کے باعث لاہور سے کراچی کےلیے ٹرین آپریشن نہیں چلے گی، پشاور سے چلنے والی ٹرین بھی ملتان تک محدود رہے گی جبکہ خانپور سے حیدرآباد تک ریلوے آپریشن معطل رہے گا۔ بارشوں کے باعث ریلوے ٹریک متاثر ہوئے ہیں، مسافروں کی زندگی اہم ہے، آپریشن فوری کررہے ہیں۔
سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی، سندھ حکومت کو 15 ارب کی امداد کا اعلان
وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے سندھ حکومت کو 15 ارب روپے کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔
متاثرین سیلاب سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سیلابی ریلوں نے ہر طرف تباہی مچائی ہوئی ہے۔ سندھ میں تو ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ 900سےزائد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ مجھے تباہ کاریوں پر بریفنگ دی گئی۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ گھروں سے باہر ہیں۔ بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سیلابی صورتحال ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے فصلیں تباہ، مکانات منہدم، لوگ بے گھر،مواصلاتی نظام درہم برہم ہے۔ سندھ حکومت گرانٹ کو سیلاب متاثرین کی بحالی میں استعمال کرے گی۔ صوبوں سے مل کر سیلاب زدگان کی مدد کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 28ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو دیے ہیں۔ آج سے سندھ میں یہ تقسیم شروع ہوجائے گی۔ بلوچستان میں بھی حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔
وزیراعظم نے سندھ حکومت کے لیے 15ارب گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ حکومت یہ گرانٹ سیلاب متاثرین پرخرچ کرے گی۔ این ڈی ایم اے سندھ حکومت کے ساتھ معاونت کرے گا۔ مخیر حضرات ،صنعتکار، تاجر عطیات دیں۔ خیمے اور مچھر دانیوں کا انتظام کررہے ہیں ۔ جو مچھر دانیاں ملیں انہیں بلوچستان اور سندھ میں تقسیم کیں ۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے سکھر، روہڑی، خیرپور، فیض گنج، کوٹ ڈجی اور ٹھری میر واہ کے سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا جس کے بعد وہ متاثرین کی مدد اور بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے سکھر پہنچے تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی موجود تھے۔
ضلعی انتظامیہ اورپی ڈی ایم اے کی جانب سے وزیراعظم کوبحالی کےکاموں سے متعلق بریفنگ دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ سیلاب متاثرین کی ہرممکن مدد کی جا رہی ہے۔ بعض علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ شہر اور دیہاتوں کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، جس کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
سیلاب اور بارشوں سےاب تک 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے:وزیرِ اعظم شہباز شریف
شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں ، اتنی بڑی تعداد میں متاثرین کو کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور خیموں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، گھروں، املاک اور انفراسٹرکچر کو ہونے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ اربوں میں ہے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں مقیم مختلف ممالک کے سفرا سے ملکی سیلابی صورتحال پر ہنگامی ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ 30سال کی ریکارڈ بارش ہوئی، 13 جون کے بعد سے اب تک سیلابی ریلوں میں 900 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے، 1300 سے زیادہ افراد زخمی اور تقریباً 8لاکھ مویشی سیلاب کی نذر ہوئے، گھروں، املاک اور انفراسٹرکچر کو ہونے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ اربوں روپے لگایا گیا ہے، مجموعی طور پر اب تک سیلاب سے متاثرین کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی میں متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہےجبکہ پاکستان کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ حکومت سیلاب زدگان کے فوری ریسکیو کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے، متاثرین میں فوری طور پر فلڈ ریلیف کیش پروگرام کے تحت 25 ہزار فی خاندان فراہم کئے جا رہے ہیں ، متاثرین کو کھانے پینے کی اشیاء اور خیموں کی فراہمی کی حتیٰ الامکان کوششیں کی جارہی ہیں، اتنی بڑی تعداد میں متاثرین کو کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، خیموں کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انفراسٹرکچر کی تباہی متاثرین تک امداد پہنچانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، پاکستان اپنی معاشی مشکلات کے باوجود سیلاب متاثرین کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کو یقینی بنا رہا ہے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے تعاون کیلئے مشکور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قدرتی آفت میں دنیا بھر کے ممالک کو سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔ متاثرین کو خیمے، مچھر دانیاں، کھانے پینے کی اشیاء، ادویات کی فراہمی کیلئے دوست ممالک اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ ملاقات میں آسٹریلیاء، چین، جاپان، کویت، جنوبی کوریا، ترکی ،متحدہ عرب امارات، امریکا، جرمنی، بحرین، یورپی یونین، فرانس، اومان، قطر، برطانیہ اور سعودیہ عرب کے سفراء موجود تھے۔
ملاقات میں شرکا کو این ڈی ایم اے کی جانب سے حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور حکومت کی ریسکیو اور ریلیف کارروائیوں کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریاں، مزید 34 افراد لقمہ اجل، ہزاروں بستیاں اجڑ گئیں
ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں، گزشتہ 24 گھنٹے میں مزید 34 افراد جاں بحق ہوگئے، 50 ہزار سے زائد افراد محفوظ مقامات پر پہنچا دیئے گئے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے ملک کے مختلف صوبوں میں گزشتہ چوبیس گھنٹے میں 34 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، خیبر پختونخوا میں 16، پنجاب میں 13، سندھ میں 10 اور بلوچستان میں 4 اموات ہوئیں جس سے مجموعی تعداد 934 تک پہنچ گئی جبکہ اب تک 42 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں، متاثرہ 50 ہزارسے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، جبکہ 27 ہزار سے زائد خیمے تقسیم کردئیے گئے۔
سندھ میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے صوبے میں اب تک بچوں سمیت 329 افراد موت کے منہ میں چلے گئے، 24 گھنٹوں کے دوران سندھ میں 25 ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ اب تک سیلابی صورتحال میں 90 ہزار106 جانور ہلاک ہوچکے ہیں، 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ 8 ہلاکتیں نوشہروفیروز میں ہوئیں، دادو 4، حیدرآباد اور بینظیر آباد میں 3 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ادھر ٹانک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ضلع کو آفت زدہ قراردے دیا گیا ہے، 90 فیصد علاقہ سیلابی ریلوں سے بری طرح متاثر ہو گیا، خاتون سمیت تین افراد جاں بحق، دو درجن سے زائد دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا، پاک فوج اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو آپریشن بھی جاری ہے، تین روز سے بجلی، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہے۔
کندھ کوٹ میں بارشوں سے تباہ کاریوں کے باعث بھوک اور پیاس سے ایک بچی سمیت دو افراد جاں بحق، جبکہ 5 زخمی ہوئے ہیں، ضلع بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 16 ہوگئی، متاثرین نے امداد کیلئے انڈس ہائی وے پر دھرنا دے دیا۔
دوسری جانب سوات میں بھی سیلا ب نے تباہی مچا دی، بحرین مدین میں متعدد عمارتیں دریا برد ہو گئیں، مٹہ، سخرہ، لالکو میں رابطہ پل اور متعدد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
مینگورہ بائی پاس پر کئی ہوٹل اور ریسٹورنٹس زیر آب آگئے ہیں جبکہ روڈ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے کے باعث مینگورہ بائی پاس روڈ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔
دریائے سوات میں اونچے درجے کے سیلاب کے پیش نظر انتظامیہ نے دریا کے کنارے آباد لوگوں کو نقل مکانی کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
ادھر پنجاب میں دریائے چناب کے سیلابی پانی سے متاثرہ اوچ شریف کے مکین فصلوں مال مویشیوں سے محروم ہو گئے ہیں، مکانات بھی سیلابی پانی کی نذر ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کو ابھی تک کوئی امداد نہیں پہنچ سکی، سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گار زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمارے پاس ڈیم ہوتے تو سیلابی پانی سے نقصانات کے بجائے ترقی ہوتی: عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ڈیم تعمیر کر کے ہم سیلاب کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں ، اگر ہمارے پاس ڈیم ہوتے تو سیلابی پانی سے نقصانات کی بجائے ترقی ہوتی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وزیراعلیٰ کے پی سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، دورے کے دوران عمران خان اور محمودخان نے متاثرہ اضلاع میں نقصانات اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں سیلاب متاثرین کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بارشوں اور سیلاب سے سند ھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے ہونے والی نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہاہے ، 2010کےسیلاب میں بھی اتنے نقصانات نہیں ہوئے جتنے حالیہ سیلاب میں ہوئے، سندھ اور بلوچستان میں بھی بہت نقصان ہوا ہے، ہماری حکومت کا 10 ڈیم بنانے کا منصوبہ تھا کیونکہ ڈیموں سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر ہمارے پاس ڈیم ہوں تو پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، کوہ سلیمان کی پہاڑی پر ڈیم بننا چاہیے،سیلاب کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے، ٹانک زام ڈیم کی فیزیبلٹی کی گئی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈیم تعمیر کرکے ہم سیلاب کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں ، ڈیم تعمیر کرکے ہم بارشوں کے پانی کو قیمتی اثاثہ بنا سکتے ہیں،پاکستان میں ڈیمزکی تعمیر ناگزیر ہے ، اپنے دور حکومت میں دس ڈیمز بنانے کا پلان بنایا تھا، متعلقہ انتظامیہ ہر متاثرہ شخص تک رسائی ممکن بنائے ،نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے ۔
عمران خان نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے نقصانات پر دل خون کے آنسوں رورہا ہے، بارشوں سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ متاثرین کی بلا تفریق مدد کی جائے ، مشکل کی اس گھڑی میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گا، متاثرین کے دکھ درد میں شریک ہوں۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے پارٹی کے رضاکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیلاب متاثرہ افراد کی مدد اور خدمت کریں۔ ہم سب کو سیلاب زدگان کی خدمت کرنی چاہیے، مشکل کی اس گھڑی میں انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے، میں پلان بنا رہا ہوں کہ سروے کر کے متاثرین کی امداد کرسکوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک کو معاشی استحکام نہیں ملتا مہنگائی کنٹرول نہیں ہوگی، اس حکومت نے مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، ملک مجرموں کے ہاتھ میں ہے اورایک مجرم باہر ملک میں بیٹھا ہے، اس حکومت نے اے آر وائی نیوز کو بھی بند کردیا ہے۔ یہ حکومت کچھ بھی کرلے ہمیں فائدہ ہو رہا ہے، ہم ضمنی الیکشن بھی جیت رہے ہیں۔
دوسری طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سابق وزیراعظم نے لکھا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے سیلاب سے تباہ شدہ علاقوں کو دیکھنے گئے۔ تباہی لامتناہی ہے۔
عمران خان نے لکھا کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ بات چیت کی کس طرح متاثرین کے لیے امداد کے پیمانے اور رفتار کو بہتر بنایا جائے، بچوں سمیت بیماری کے پھیلاؤ کیخلاف اتحجاجی تدابیر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے ٹانک اور ڈی آئی خان میں جو سیلاب دیکھا اس سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان کس چیلنج کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ ملک بھر کے دیگر کئی علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔