دوستی کے آداب

Published On 16 September,2022 03:32 pm

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) دوستی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے معاشرے میں تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ روزمرّہ کے مشاہدات اور تاریخ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت کی بھلائی والے کاموں میں بھی لگے رہے۔ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو برے دوستوں کی وجہ سے دنیا و آخرت کی بربادی والے راستے پر چل نکلے۔ اسلامی معاشرے میں دوستی کے تقاضے کیا ہیں؟ اس حوالے سے رسولِ کریمﷺ کا یہ فرمان پیشِ نظر رکھنا چاہئے: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘ (مستدرک، ج5، ص237، حدیث:7399)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے مجھ سے فرمایا: ’’اللہ کیلئے دوستی ہو،اللہ کیلئے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 10357)۔

دوستی اور مصاحبت ہمیشہ نیک، صالح اور قرآن و سنّت کے احکام پر عمل پیرا ہونے والوں کی ہی اختیار کرنی چاہئے، کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: ’’اچھے برے ساتھی کی مثال مشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مشک اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تْو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلا دے گا یا تْو اس سے بدبو پائے گا۔ (مسلم، ص 1084، حدیث 6692)

کافرومشرک سے دوستی اورقرآنی تعلیمات: قرآن مجیدمیں کفارسے دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور بہت سی جگہوں پراس کا واضح ذکر آیا ہے کہ کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ قرآن مجید میں فرمان ربانی ہے: ’’اے ایمان والو! ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے، ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو‘‘ (المائدہ: 57)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کے بعد ضروری ہے کے اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت ونفرت قائم کی جائے چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، اُن میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کے اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عدوات قائم و بحال رکھے اور یہ شرعی فریضہ ہے کے ہر صاحب توحید سے محبت کرے اور اس کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار رکھے اسی طرح ہر شرک کرنے والے سے دور رہے۔

قرآن مجید میں ارشادہے: ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘(المائدہ:51)۔ یہ آیت مبارکہ بطور خاص اہل کتاب سے دوستی وتعلق قائم کرنے کی حرمت وممانعت پر دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے کفار کی دوستی بھی مسلمانوں پر حرام قرار دے دی جو خونی رشتے اور نسبت کے اعتبار سے انتہائی قریب ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم اپنے باپ (دادا) اور بھائیوں کو بھی دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو محبوب رکھتے ہوں، اور تم میں سے جو شخص بھی انہیں دوست رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘(التوبہ:23)۔

ایک اورمقام پرقرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے: ’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اْس کے رسول (ﷺ) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔(المجادلہ:22)

مسلمان مومن سے دوستی اورقرآنی تعلیمات: جس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار اور عقیدہ اسلامیہ کے دشمنوں کی دوستی کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح ان کے مقابل مسلمانوں (مومنوں) سے دوستی قائم کرنے اور محبت رکھنے کو لازم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’بیشک تمہارا دوست تو اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں(المائدہ:55)۔

دوستی کی بنیادمحبت:دوستی کی بنیاد جذبہ محبت ہے اورہر رشتے کی بنیاد کسی نہ کسی حوالے سے محبت پر ہوتی ہے۔ تعلقات کی نوعیت کی بنیاد پر ہم اس محبت کو مختلف عنوانات سے منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً کبھی یہ محبت ماں کہلاتی ہے تو کبھی باپ، کبھی بہن تو کبھی بھائی، کبھی بیٹا توکبھی بیٹی، کبھی بیوی تو کبھی شوہر، الغرض محبت کے بے شمار عنوانات ہیں۔ ہر عنوان کے مطابق محبت کے جذبے کی حدود و شرائط اور حقوق و فرائض و آداب مختلف ہیں۔

محبت کے عنوانات کی طرح دوستی بھی ایک پاکیزہ عنوان ہے جس میں محبت کے جذبے کی طرح حدود اور شرائط وآداب اپنے عنوان کے حوالے سے الگ الگ ہیں۔ البتہ ہماری ذہنی پراگندگی اس دوستی کی پاکیزگی کو داغدار بنا سکتی ہے وگرنہ دوستی تو زندگی میں ایک دوسرے کو زندہ رہنے میں مدد دینے کا نام ہے۔ علاوہ ازیں حلقہ احباب میں جتنی وسعت ہو گی، انسان زندگی کے حقائق و معارف کے متعلق اتنے ہی مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے آگاہ ہو گا۔ یہ امر بالآخر سوچ میں وسعت اور طبیعت میں نرمی و شفقت کا باعث ہو گا۔ انسان اپنی تنگ نظری سے بھی چھٹکارا پاتا ہے بشرطیکہ زندگی کے متعلق اس کا اپنا نقطہ نظر مثبت ہو تاکہ وہ دوسروں کے افکار و نظریات سے فائدہ اٹھا سکے۔

آدابِ دوستی:ذیل میں ان چندخوبیوں / آداب کاذکرکیاجائے گاجن کی وجہ سے ایک انسان اچھا دوست کہلا سکتا ہے۔

خوبیوں پر نظر: آدابِ دوستی میں سے پہلا ادب یہ ہے کہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سب کے سامنے سراہیں مگر خامیوں کو صرف اور صرف علیحدگی میں بغرضِ اصلاح اس سے بیان کریں۔ حقیقی دوست وہی ہے جو اپنے دوست کی عزت کو اپنی عزت سمجھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ایسے پڑوسی سے اللہ کی پناہ مانگو کہ وہ تمہاری نیکی دیکھے تو چھپادے اور اگر تمہاری برائی دیکھے تو اسے سب پر ظاہر کر دے‘‘ (للطبرانی،ج1،حدیث 1339)۔ یہی وجہ ہے کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ بھی نیک بندوں کے ساتھ حقِ دوستی اس طرح ادا کرے گا کہ انہیں روزِ محشر اپنے پردہ رحمت میں لے کر حساب کتاب کرے گا تاکہ میرے نیک بندے کی خامیاں کسی اور پر عیاں نہ ہوں۔

اچھے دوست ایک دوسرے کی کسی مخصوص عادت کو اس کا کردار نہیں سمجھتے۔ اس لئے کہ کردار تو بے شمار عادات سے مل کر بنتا ہے۔ اچھی عادات کی کثرت میں سے کوئی ایک آدھ بری عادت کی بنیاد پر ہم کسی کو بدکردار نہیں کہہ سکتے۔ ہم سب اپنی شخصیت میں کمزوریاں رکھتے ہیں۔ دوستی نام ہی اس رشتے کا ہے کہ خامیوں سے آگاہی کے باوجود خوبیوں کی بنیاد پر محبت کی جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اچھے دوستوں کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنی بری عادات چھوڑ دیں، یہی اچھی دوستی کی برکت ہے۔

حقوق کی ادائیگی:دوستی کوقائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنے حقوق کے مطالبہ کے بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی پرتوجہ دیں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت نہ برتیں۔ انسان کو ایک لحاظ سے ہوشیار اور ایک لحاظ سے بے آزار ہونا چاہیے۔ ہوشیار اس لیے کہ کوئی اسے بے وقوف نہ بنا سکے۔ ہوشیاری کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت میں رحمت و شفقت کا پہلو بھی اس قدر غالب ہو کہ دوسرے اسے بے آزار اور علامتِ امن سمجھیں۔ یعنی دوسرے لوگوں کو اس کی رفاقت اور دوستی میں اپنے حقوق کے چھن جانے کا خوف نہ ہو۔

عزت و احترام:آدابِ دوستی میں یہ امر انتہائی اہم ہے کہ ہمارے دل میں اپنے دوستوں کیلئے عزت و احترام کی بنیاد ان کے کردار پر ہو، ان کے حالات پر نہیں۔کسی کے حالات کاخراب ہونااس کے خراب کردار کی علامت نہیں ہوتے۔ وگرنہ نیک لوگوں پر مصائب و آلام کی حکمت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ مصیبتیں تو نصابِ عشق و محبت کا حصہ ہوتی ہیں۔ انسان جتنا نیک اور متقی ہوتا ہے، اللہ اتنا ہی اسے مصائب و آلام سے گزار کر بلند سے بلند تر کرتا چلاجاتا ہے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے:حضرت سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے) وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘(جامع ترمذی،کتاب الزہد،حدیث2398)۔

اختلافات کوبرداشت کرنا: دوسروں کے عقائد و نظریات کا ذاتی اختلاف کے باوجود احترام کرنا ہی انسانیت ہے۔ دوستی دوستوں کے احساسات و جذبات پر حاوی ہونے یا انہیں خریدنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو رشتہ محبت و احترام استوار کرنے کا نام ہے۔ کیا اللہ کی ذات سے بڑھ کر کوئی غیرت مند ہے؟ وہ بھی تو اپنی مخلوق کے اپنی ذات کے متعلق غلط عقائد و نظریات کے باوجود ان کی پرورش اور دعا قبول کرتا ہے۔

تحائف کا تبادلہ: تحائف علاماتِ محبت میں سے ایک علامت ہے۔ تحفے سے ہماری مراد کوئی نہایت قیمتی شے نہیں بلکہ یہ پیاری سی مسکراہٹ سے لے کر کوئی خوبصورت پوسٹ کارڈ تک ہو سکتا ہے۔ تبادلہ تحائف میں اصل قیمت تو اس جذبہ محبت کی ہے جس کے تحت وہ تحفہ دیا جا رہا ہے۔ تحفہ تو محض علامت ہے۔ تحائف کی قیمت کا اندازہ لگانے والے قدر شناس لوگ نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ دوستی کی قدر نظر کی محتا ج ہوتی ہے، تحفہ کی نہیں۔آج کل ایک رواج عام ہے کہ کسی کو تحفہ دیتے وقت اس کی شخصیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اپنی حیثیت کو نہیں دیکھا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں قیمتی نہیں بلکہ خوبصورت تحائف یادگار ہوتے ہیں۔اگر آپ کا خریدا ہوا تحفہ دیکھنے میں نفیس اور خوبصورت نہ ہو تو وہ بیکارہے پھر چاہے وہ کتنا بھی مہنگا کیوں نہ ہو۔ایک آدمی اپنے کسی دوست کو اس کی حیثیت کے لائق چیز نہیں دے سکتا تو کیا ہوا، جواپنی حیثیت ہے اس کے مطابق دے دے۔ وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تحفہ کو نہ دیکھے بلکہ تحفہ دینے والے کی محبت کو سمجھے اور خوشی کا اظہار کرے جس طرح وہ قیمتی سے قیمتی تحفہ ملنے پر کرتا ہے۔

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر استحصال زدہ معاشرہ ہے۔ ہر شخص بالعموم ظلم و ناانصافی کی چکی میں پس رہا ہے۔چنانچہ ہمارے دن کا بیشتر حصہ ردِعمل کے سیلاب میں ضائع ہو جاتا ہے۔ وگرنہ دوسروں میں اچھائی تلاش کر کے اس کی بنیاد پر رشتہ دوستی استوار کرنا کوئی مشکل تو نہیں، فقط تبدیلی نظر کا معاملہ ہے۔ کبھی آزما کر تو دیکھیے، مشکل ضرور ہے مگر اچھے دوستوں کی صورت میں اس کا انعام بھی توموجود ہے۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں ، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔
 

Advertisement