لاہور: (سلمان غنی) سیاسی محاذ پر کسی حد تک درجہ حرارت میں کمی، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے اس انٹرویو کے نتیجہ میں دیکھنے میں آئی تھی جس میں انہوں نے الیکشن کو ہر بحران کا حل قرار دیتے ہوئے چند روز میں اچھی خبر کی نوید دی تھی اور کہا تھا کہ سیاسی مفاہمت ناگزیر ہے۔
صدر مملکت کے مذکورہ بیان اور پس منظر میں مفاہمانہ کوششوں کے اثرات خود سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانات سے بھی ظاہر ہونے لگے تھے لیکن چکوال میں ان کی جانب سے آنے والا شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ مفاہمانہ کوششیں دم توڑ چکی ہیں اور سابق وزیراعظم عمران خان بڑے احتجاج کے چکر میں ہیں اور اس کیلئے اپنے کارکنوں اور عوام کو تیار کر رہے ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے ان کی جماعت میں یکسوئی ہے اور وہ اس سیاسی جنگ کیلئے تیار ہیں؟ کیونکہ خود عمران خان نے اپنی جماعت کے بعض ذمہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کے رابطے بند کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود عمران خان نفسیاتی کیفیت کا شکار ہیں۔ بظاہر وہ سب کچھ قبل از وقت انتخابات کیلئے کرتے نظر آ رہے تھے لیکن اب وہ اس حوالے سے مایوس ہیں اور وہ نئی فوجی تقرری کے حوالے سے دبائو بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔
ایسے امکانات بھی ہیں کہ وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کریں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس دبائو کے نتیجہ میں حکومت اور اداروں کو سر نڈر کرنے پر مجبور کر پائیں گے لیکن حکومت پر ایسا کوئی خوف سوار نظر نہیں آ رہا۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ عمران خان کا جارحانہ اندازخود ان کیلئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے ان کی جماعت کے سینئر لوگ بھی پریشانی سے دو چار ہیں ،وہ اس حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
پنجاب کے محاذ پر ابھی مستقل چیف سیکرٹری کا تقرر طے نہیں ہوا تھا کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے معاملے پر وفاق اور پنجاب کے درمیان ایک بڑا تنازعہ سامنے آ گیا۔ وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کئے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کو کہا۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے مذکورہ احکامات کو اپنے اختیارات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو ہٹانا یا لگانا پنجاب حکومت کا اختیار ہے لہٰذا سی سی پی او لاہور اپنا کام جاری رکھیں۔ سی سی پی او لاہور کے تبادلہ کے پس منظر میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ لاہور کے دوران انہیں ممکنہ سکیورٹی فراہم نہ کرنے پر پہلے سے ہی وفاق کے ان کے حوالے سے تحفظات تھے لیکن اب ان کی جانب سے دو وفاقی وزراء جاوید لطیف اور مریم اورنگزیب کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنے کے عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مذکورہ مقدمہ کے حوالے سے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے احکامات کو روک رکھا تھا لیکن سی سی پی او نے براہ راست حکومت کی ہدایت پر مقدمہ درج کر دیا۔
خود سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کا کہنا ہے کہ میں پنجاب حکومت کے احکامات کا پابند ہوں لہٰذا جب تک پنجاب حکومت احکامات جاری نہیں کرتی کام جاری رکھوں گا۔جہاں تک پوسٹنگ کے حوالے سے طے شدہ طریقہ کار کا تعلق ہے تو جب وفاق کا کوئی افسر صوبائی حکومت کو دیا جاتا ہے تو اس کی پوسٹنگ، ٹرانسفر کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس آ جاتا ہے اس سے قبل چیف سیکرٹری کامران علی افضل کی جانب سے پنجاب حکومت میں کام نہ کرنے کے اعلان نے بھی نئی صورتحال پیدا کی تھی اور ان کے اس عمل پر ایک حکومتی ذمہ دار کی جانب سے ان کے حوالے سے نازیبا کلمات بیان کئے گئے۔
مذکورہ انتظامی صورتحال کے حوالے سے پیدا بحرانی کیفیت کا حکومتوں کو فائدہ یا نقصان ہو نہ ہو۔ عام آدمی پر اس کے اثرات ضرور ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اپنے اپنے سیاسی مفادات اور سیاسی مخالفین کو فکس اَپ کرنے کیلئے افسران کو دی جانے والی ہدایات اور احکامات خود ان کیلئے بڑا امتحان بن جاتے ہیں۔
ایسے افسران موجود ہیں جو اب بھی ایسے احکامات پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہوتے ہیں لیکن وہ افسران حکومتوں کے آنکھ تارے بنتے ہیں جو ان کے ہر طرح کے احکامات پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ پنجاب کا معاملہ تو ایک عرصہ سے ایسی خرابی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ گورننس کا عمل بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتا جارہا ہے۔
2018ء کے بعد سے اب تک پنجاب میں گورننس کا عمل یقینی اس لئے نہیں بن رہا کہ احکامات جاری کرنے کا اختیار بہت سے ہاتھوں میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب افسران اپنی پوسٹنگ سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اگر ایک صوبہ میں سب سے بڑا انتظامی افسر ایسی کسی کیفیت کے باعث کام کرنے سے انکار کر دے تو اس سے انتظامی مشینری پر کیا اثرات ہوں گے یہ سوچنا پڑے گا۔