اسلام آباد: (محمد عادل) سائفر آڈیو لیکس کے بعد عمران خان کے بیانیہ کو دھچکا لگا ۔ اب صدر مملکت عارف علوی بھی سازشی تھیوری سے مکمل طور پر متفق نظر نہیں آتے، اسی لئے وہ تحقیقات کے خواہشمند بھی ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔فوج کے سیاسی کردار بارے ان کی رائے بھی کپتان سے اب مختلف ہے ،ان کا کہناہے کہ فوج کو نیوٹرل ہی ہونا چاہئے، آئین میں فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
آنے والے دنوں میں سائفرکا معاملہ عمران خان کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے، گو کہ وہ ابھی تک اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کروانے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دے لیکن جب وہ خود اقتدار میں تھے تو انہوں نے جوڈیشل کمیشن کی بجائے ایک جنرل ریٹائرڈ طارق کی سربراہی میں کمیشن بنانے کو ترجیح دی جوجنرل صاحب کی معذرت کی وجہ سے تشکیل نہ پاسکا تھا۔
آڈیو لیکس کے بعد یہ معاملہ اب اتنا آسان نہیں رہا ۔عام رائے یہ ہے کہ مراسلے کو خاص رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور ایک انتہائی سنجیدہ معاملے پر غیر سنجیدہ طرز سیاست نے اب عمران خان کے لئے کافی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ وہ عوام میں جتنے بھی مقبول کیوں نہ ہوجائیں مستقبل میں ان کیلئے دوبار ہ اقتدار اور حساس معاملات تک رسائی مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے سائفر کی کاپی گم ہونا بھی ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے، نوازشریف نے عمران خان کے بیانیہ کو ریاست کے خلاف سازش قرار دیا ہے اور حکومت کو جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی ہدایت دی ہے جس کے بعد حکومت نے ایف آئی اے کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی ہے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے پانچ رکنی تحقیقاتی ٹیم تو بنائی ہے لیکن اس سے زیادہ ابھی تک کوئی پراگریس نظر نہیں آئی۔ البتہ فارن فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے نے چیئرمین تحریک انصاف کیخلاف مقدمہ ضرور درج کرلیا ہے ۔ اب حکمران اتحاد کو بھی اس معاملہ پر دانشمندی سے کام لینا چاہئے یہ معاملہ عمران خان یا تحریک انصاف کی شکست کا نہیں بلکہ ملکی سالمیت، مفادات اور عالمی برادری سے تعلقات کا ہے۔ اس لئے اس میں احتیاط ضروری ہے۔ بیانات کی بجائے محتاط طریقے سے معاملات کو حتمی انجام تک پہنچانا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے تاحیات نااہلی پر ریمارکس کے بعد نوازشریف نے اپنی سزا پر آواز اٹھائی ہے ، سپریم کورٹ نے 14 اپریل 2018ء کو آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی تشریح کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اور سزا پانے والا سیاست میں بھی حصہ نہیں لے سکے گا۔ تاحیات نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ بار کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ تحریک انصاف نوازشریف کی پریس کانفرنس کو اداروں کے خلاف چارج شیٹ سمجھتی ہے لیکن پی ٹی آئی کا طرز سیاست بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ فیصلے حق میں آئیں توبیانیہ بنایا جاتا ہے جبکہ مخالفت میں آئیںتو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔فوج میں 12 میجرجنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دیدی گئی ہے۔ عمران خان نومبر کی تقرری پر مسلسل تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ آئندہ چند روز میںہونے والی پوسٹنگ ٹرانسفرز سے مستقبل کی صورتحال بھی واضح ہوجائے گی ، ایک بات جو عمران خان کو بھی سمجھنی چاہئے کہ فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے یہا ں شخصیت نہیں میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں اس لئے تقرری کے حوالے سے ادارے کو متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔
جہاں تک انتخابات کی تاریخ کا معاملہ ہے تو زبردستی یا جتھے لے کر مرکز پر چڑھائی سے کوئی بات منوائی جاسکتی ہے نہ ہی حکومت گرائی جاسکتی ہے ۔اس لڑائی میں لاشیں گر گئیں تو پھر حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ آرمی چیف پہلے ہی واضح پیغام دے چکے ہیں کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی لیکن کسی گروپ کو ملک میں سیاسی یا اقتصادی عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت بھی نہیں دے گی۔
حکومت کی مخالفت کے باوجود الیکشن کمیشن نے 16 اکتوبر کو ضمنی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ چند دن رہ گئے ہیں حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو اپنی سیاسی مقبولیت کا اندازہ ہوجائیگا۔ اگر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کرلی تو اسے پارلیمنٹ میں دوبارہ جانا چاہئے اور حکومت سے انتخابات سمیت تمام ایشوز پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔